dailymotion-domain-verification=dm67ezljlaa1ez90i Daily news

Sunday, August 21, 2016

دنیاکے حساس ترین خفیہ راز

0 comments
دنیاکے حساس ترین خفیہ راز
دنیاکے حساس ترین خفیہ راز ہم بہت سی معلومات حاصل کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور اس میں اکثر کامیاب بھی ہوجاتے ہیں- لیکن دنیا کے چند راز ایسے بھی ہیں کہ اگر ہم ان کی حقیقت سے واقف ہوجائیں تو ہماری جان کو خطرہ بھی ہوسکتا ہے آج ایسےکچھ حساس ترین خفیہ رازوں کے بارے اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو بتاتے ہیں۔ U.S. Nuclear Secrets امریکہ کا نیوکلئیر پروگرام دنیا کا سب سے بڑا راز ہے- دنیا کے چند مخصوص افراد ہی اس بات سے واقف ہیں کہ امریکہ کا نیوکلئیر پلانٹ کہاں واقع ہے؟ امریکی حکومت ہمیشہ اپنی خفیہ دستاویز میں ایٹمی معلومات سے متعلق صرف کوڈ کا استعمال کرتی ہے اور ان کوڈ تک رسائی صرف امریکی محکمہ دفاع کے اعلیٰ حکام کو حاصل ہوتی ہے- آج تک امریکی حکومت نے عوام کو اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد اور ان کی اقسام سے متعلق آگاہ نہیں کیا- Oil deposits location in USA امریکی حکومت نے اپنی تیل کے ذخائر کو بھی ہمیشہ سے ایک راز رکھا ہے اور کوئی ان ذخائر کے مقام سے واقف نہیں- ایک افواہ یہ ہے کہ اگر کسی امریکی کی زمین سے تیل دریافت ہوا ہے تو امریکی حکومت اس سے وہ زمین خرید لے گی اور آپ سے اس مقام کو خفیہ رکھنے کے حوالے سے ایک معاہدہ بھی کرے گی- انہیں خفیہ رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ امریکی حکومت اس لیے خفیہ رکھتی ہے کہ تیل دریافت ہونے والے مقامات کو امیر افراد نہ خرید لیں اور وہ ان مقامات پر اپنے کنویں بنا کر مزید دولت کمائیں- Adolf Hitler تاریخ بتاتی ہے کہ 30 اپریل 1945 کو ہٹلر نے اپنے زیرِ زمین بنکر میں خودکشی کر لی تھی- کیا یہ واقعی حقیقت ہے؟ یا پھر دنیا کو جھوٹ بتایا گیا ہے؟ ایف بی آئی کی شائع کی جانے والی دستاویز میں اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ ہٹلر جنگِ عظیم دوئم کے بعد بھی زندہ تھا اور Andes کی پہاڑیوں میں رہائش پذیر تھا- ان دستاویز واضح طور پر ہٹلر کی خودکشی کو ایک ڈرامہ دکھایا گیا ہے- سب سے زیادہ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ ایف بی آئی اس حقیقت سے واقف تھی لیکن انہوں نے پھر بھی اسے راز کیوں رکھا؟ U.S Medical Secrets امریکہ کے قوانین کے مطابق کسی بھی مریض کی طبی معلومات ظاہر نہیں کی جاسکتی اور یہ معلومات ہمیشہ راز ہی رہتی ہے- یہاں تک کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کئی امریکی ڈاکٹروں کی جان ان معلومات کو راز رکھنے کی وجہ سے خطرے میں بھی ہوتی ہے- اس قانون کا مقصد مریضوں کو کسی قسم کی تذلیل یا پریشانی سے بچانا ہے- اور مریضوں کی طبی معلومات کو خفیہ رکھنے کے حوالے سے امریکہ میں میڈیکل آفیسرز سے باقاعدہ حلف لیا جاتا- مریضوں کی میڈیکل فائل بھی صرف قانونی کاروائی کے بعد ہی متعلقہ حکام کے حوالے کی جاتی ہے- The Hapsburg Napkin Fold Hapsburg نیپکن کی فولڈنگ کا انداز آسٹریا کا ایک بہت بڑا راز ہے- یقیناً یہ بات سننے میں انتہائی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ آسٹریا میں نیپکن کی فولڈنگ کا یہ مخصوص انداز ایک راز ہے اور یہ انداز وہاں کے شاہی خاندان سے تعلق رکھتا ہے- دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی لوگوں نے نیپکن کو اس انداز میں فولڈ کرنے کی کوشش کی لیکن سب ناکام رہے کیونکہ اس سلسلے میں کوئی رہنما اصول موجود نہیں- اور اس طریقہ کار سے صرف ریاست کے انتہائی اعلیٰ حکام ہی واقف ہیں- یہاں تک کہ جو یہ نیپکن فولڈ کرنا جانتے ہیں ان سے حلف لیا گیا ہے کہ وہ اس راز سے کبھی پردہ نہیں اٹھائیں گے- KFC Recipe کوئی نہیں جانتا کہ مشہور فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ کے ایف سی کھانے تیار کرنے کے لیے کونسی ترکیب استعمال کرتا ہے- کے ایف سی کی خفیہ ریسیپی 1930 میں Kentucky کے Herland Sanders نے تیار کی تھی- ہرلینڈ مشہور چکن ڈش نارتھ کیبن کے رہائشیوں کو فروخت کرتا تھا جو انتہائی مزیدار ہوتی تھی اور ہر کوئی اس کے ذائقے کے بارے میں بات کرتا تھا- ہرلینڈ کا کاروبار چل پڑا اور پوری دنیا میں پھیل گیا- آج دنیا اسے کے ایف سی کے نام سے جانتی ہے جو کہ دنیا کے بڑے ریسٹورنٹ میں سے ایک ہے- شاید ہرلینڈ کی کامیابی کا سہرا اسی خفیہ ریسیپی کے سر ہے- HIV/AIDS 1980 سے ایچ آئی وی یا ایڈز کی شروعات پر بحث کی جارہی ہے اور اس پر مختلف نظریات پیش کیے گئے ہیں- اکثر لوگوں کے نزدیک یہ بیماری افریقہ سے پھیلی تھی لیکن کیا یہ واقعی صحیح ہے؟ متعدد لوگ ایسے بھی ہے جن کا یہ ماننا ہے کہ ایڈز کا وائرس سائنسدانوں نے اپنی لیبارٹری میں تیا ر کیا تھا اور ان کے نزدیک یہ انسانوں کا تیار کردہ اور پھیلایا ہوا وائرس ہے- لیکن اس بیماری کی اصل حقیقت بھی دنیا کے بڑے رازوں میں سے ایک راز ہے- Coca Cola Formula کوکا کولا کیسے تیار کی جاتی ہے؟ یہ بھی دنیا کا ایک بہت بڑا راز ہے- آپ اس راز کی اہمیت کا اندازہ اس واقعے سے باآسانی لگا سکتے ہیں کہ کوکا کولا کمپنی ایک مرتبہ اپنا بھارت کا دورہ صرف اس لیے منسوخ کرچکی ہے کہ بھارتی حکومت کوکا کولا کمپنی پر ان اجزاﺀ کی معلومات مہیا کرنے پر دباؤ ڈال رہی تھی جو اس مشروب کی تیاری میں استعمال کیے جاتے ہیں- اس فارمولے کے بارے میں صرف چند لوگ ہی جانتے ہیں اور ایک وقت میں صرف دو لوگ ہی کوکا کولا کی تیاری میں استعمال ہونے والے اجزاﺀ سے واقف ہوتے ہیں اور ان سے بھی باقاعدہ اس راز کو راز رکھنے کے لیے حلف لیا جاتا ہے-

جیلی فش

0 comments
جیلی فش
1988ء میں انسان نے سمندر کے تہہ میں ہی ابدی زندگی کا وجود رکھنے والے ایک جاندار کو دریافت کر لیا جیسے جیلی فش کہتے ہیں۔یہ دریافت بیسویں صدی میں ایک عیسائی جرمن سمندری حیاتیات کے طالب علم نے نادانستہ طور پر تلاش کی۔

جیلی فش کی کچھ ایسی اقسام ہیں جن کوبیالوجی کی حد تک لافانی ہونے کی تصدیق کی جا چکی ہے، جو کہ زخمی حالت یا مرنے سے قبل اپنے خلیات کو پہلے کی حالت میں لانے کے قابل بنا کے خود کو دوبارہ زندہ کر لیتی ہے. اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ یہ چار سے پانچ ملی میٹر کا جاندار ممکنہ طور پر لامحدود زندگی رکھتا ہے.اس جاندار کا سائنسی نام ٹیوریٹوپسس نیٹریکیولاہے اور یہ پہلی بار 1883ء میں بحیرہ روم کے سمندر میں دریافت کئے گئے تھے، لیکن ان کی دوبارہ سے جنم لینے کی انوکھی خوبی 1990ء کے وسط صدی تک کسی کو علم نہیں تھا۔

تحقیق کے مطابق زندگی کو سائیکل کرنے میں ہائیڈرزون کا انحصار چھوٹے فقاری کی موجودہ عمر پر منحصر ہے چاہے وہ جیلی فش کا دوبارہ سے جوان ہونا ہو یا نرم مرجان کا دوبارہ تروتازہ ہونا. سائنس دانوں نے سمندر کی تہوں میں ہائیڈروزون کی تلاش میں پلینکٹن جال سے چھان مارا اور حیاتیات کی نئی سینکڑوں چھوٹے نسبتاً گمنام جاندار ڈھونڈ نکالے جو کہ اب بیالوجی میں جیلی فش اور ڈوھری کے نام سے جانے جاتے ہیں.ان حیاتیاتی نمونوں کا مشاہدہ کرنے پر ایک حیران کن بات پتہ چلی کہ جیلی فش مرتی نہیں۔

تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اگر ایک ٹیوریٹوپسس ( جیلی فش ) کسی حادثے کا شکار ہو جائے یا بھوک سے کمزور ہو جائے تو یہ سمندری ریت میں خود کو لپیٹ لیتا ہے اور ایک بلاب کی شکل میں خود کو ڈھال لیتا ہے، اس کے بعد یہ ایک تعامل کرتا ہے جسے سائنسی زبان میں سیلز انڈر گو ٹرانسڈیفرینیشن کا نام دیا گیا ہے جس میں خلیات کی ایک اقسام بنیادی طور پر خلیات کی دوسری اقسام میں تبدیل ہو جاتی ہیں.

اعضاء کے خلیات مادہ منویہ یا انڈوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں یا پھر اعصابی خلیے اعضاء کے خلیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔کسی بھی جاندار میں اس طرح سے خلیات کی تبدیلی کا بلاشبہ یہ ایک بیمثال طریقہ ہے.‘‘انواع کی اصل’’ سے اقتباس جو 1996ء میں شائع ہوئی۔ جاپان، سپین اور بحر اوقیانوس میں پانامہ کی طرف جیلی فش کی دریافت کے سے پتہ چلا ہے کہ جینیاتی طور پر تمام جیلی فش اپنے اصل مسکن جیسی ہی ہیں.

محققین نے تحقیق سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پانی میں فوجی مشقوں سے کئے گئے دھماکوں سے، کارگو جہاز میں لگے پانی کے پمپس میں پانی کے کھنچاؤ سے لگنے والی ضرب سے زخمی ہوتی ہیں.جیلی فش ماحول کے مطابق خود کو ڈھالنے کی خوبی بھی رکھتی ہیں مثال کے طور پہ معتدل علاقوں میں رہنے والی جیلی فش میں 24 ٹینٹاکلز یا اس سے کچھ زیادہ ہیں اور گہرے پانیوں میں رہنے والی جیلی فش میں 8 ٹینٹاکلز ہیں.لیکن جیلی فش مناسب حالات نہ ہونے کی بنا پر شکار بھی ہو سکتی ہیں اور شکار یا بیمار ہوتی بھی ہیں اور مر بھی جاتی ہیں.

جدید تحقیق بتاتی ہے جس طرح ‘‘بریڈ پٹ’’ کی ایک فلم میں جیلی فش کا کردار خود کو بڑھاپے سے واپس بچہ بنا لیتا ہے اور امر ہو جاتا ہے لیکن اصل زندگی میں جیلی فش اس کردار سے دو ہاتھ آگے ہے کیونکہ وہ یہی عمر کو بڑھاپے سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے کے عمل ایک بار نہیں بلکہ بار بار لگاتار تبدیل کرتا ہی رہتا ہے.سائنسدانوں نے جیلی فش کو دنیا کا واحد معلوم امر رہنے والا جاندار قرار دیا ہے. اسی طرح انسانی عمر میں اضافے، بیماری یا دوسرے خلیاتی مسائل کے حل کے لئے جیلی فش پر تحقیقی مطالعہ جاری ہے۔ ( دنیا نیوز کے آرٹیکل سے ماخوذ)

ڈومز ڈے تھیوری

0 comments
ڈومز ڈے تھیوری
ڈومز ڈے تھیوری آج اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو ڈومز ڈے تھیوری کی حقیقت کے بارے میں کچھ بتاتے ہیں۔ ڈومز ڈے تھیوری کے مطابق دنیا21 دسمبر 2012 میں ختم ہوجانی تھی۔ اس تھیوری کے حقیقی ہونے سے متعلق کسی معروف اسکالر یا ماہر نے تائید بھی نہیں کی تھی۔ تاہم دنیا میں ایسے افراد اب بھی موجود ہیں جو اس تھیوری کو حقیقی جانتے ہیں۔کہ اس کی تاریخ کے تعین میں کچھ غلطی ہوئی ہے اور اب ایک نئی تاریخ یعنی 1 جنوری 2017ء دے دی گئی ہے کہ اس دن دنیا ختم ہوجائی گی ۔ان افراد کا کہنا ہے کہ 2017 میں مایان کیلنڈر کے مطابق دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس افواہ کا ماخذ پانچ ہزار سالہ قدیم تہذیب مایائی تہذیب ہے ۔ مایائی تہذیب کو ترقی یافتہ دور و تہذیب کا درجہ دیا جاتا ہے۔یہ تہذیب پانچ ہزار سال پہلے جنوبی امریکہ وسطی امریکہ اور موجودہ میکسیکو میں پھلی پھولی۔مایائی تہذیب کا راج1300قبل از مسیح سے300 تک کے درمیانی عرصہ میں تھا۔مایائی لوگ و تہذیب پانچ لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے تھے۔یہ توہم پرست لوگ تھے کیونکہ وہ سورج ،زمین ،بارش ،آگ و پانی کو دیوتا کا درجہ دیتے تھے۔ یہ مایائی مفکرین تھے جنہوں نے سال کو کچھ دنوں کے فرق سے365 دنوں میں تقسیم کیا تھا۔یوں یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں کا فلکیاتی علم اور تخیل کافی وسیع الخیال تھا۔وہ سورج چاند کی گردش پر سیر حاصل معلومات رکھتے تھے۔مایائی تہذیب کے وارث آج بھی جزیرہ نمائے یوکاٹن پر موجود ہیں۔اسی دور سے منسلک ایک کیلنڈر سے تباہی و بربادی کے نتائج اخذ کئے گئے۔یاد رہے کہ مایان تہذیب کے کیلنڈر میں2012 کا آخری مہینہ دسمبر صرف اکیس دنوں پر مشتمل ہے یعنی کیلنڈر میں اکیس دسمبر کے بعد بقیہ دنوں کی کوئی تاریخ موجود نہیں۔ لیکن اب اس کے حوالے سے ایک نئی تاریخ دے دی گئی ہے۔ یعنی 1 جنوری 2017ء۔ اگر آپ میری رائے پوچھیں تو یہ بالکل بے بنیاد ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ کیونکہ ہمارے جان سے پیارے نبی علیہ السلام نے قیامت کی نشانیاں بیان کی ہیں۔جن میں سے بہت سی نشانیاں علامات صغری (یعنی چھوٹی نشانیاں ) ہیں اور کچھ علامات کبریٰ (بڑی نشانیاں ) ہیں۔ علامات صغری میں سے تو بہت ساری وقوع پذیر ہوچکی ہیں ۔ جبکہ علامات کبری کا ظہور ابھی باقی ہے۔ ان میں سے کچھ مختصراً یہ ہیں ۔ ١. حضور انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا اس دارِ فانی سے پردہ فرمانا، ٢. بیت المقدس کا فتح ہونا، ٣. ایک عام وبا طاعون کا ہونا( یہ دو نشانیاں حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کے زمانے میں پوری ہوئی)، ٤. مال کا زیادہ ہونا( یہ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے زمانے میں ہوا)، ٥. ایک فتنہ جو عرب کے گھر گھر میں داخل ہو گا(یہ شہادتِ عثمان رضی اللّٰہ عنہ کا سبب تھا)، ٦. مسلمانوں اور نصاریٰ میں صلح ہو گی، پھر نصاریٰ غدر کریں گے، ٧. علم اٹھ جائے گا جہل بڑھ جائے گا، ٨. زنا اور شراب خوری کی بہت ہی کثرت ہو گی، ٩. عورتیں زیادہ اور مرد کم ہوں گے ١٠. جھوٹ بولنا کثرت سے ہو گا، ١١. بڑے بڑے کام نااہلوں کے سپرد ہوں گے، بےعلم اور کم علم لوگ پیشوا بن جائیں گے، کم درجہ کے لوگ بڑی بڑی اونچی عمارتیں بنائیں گے، ١٢. لوگ مصیبتوں کی وجہ سے موت کی آرزو کریں گے، ١٣. سردار لوگ مالِ غنیمت کو اپنا حصہ سمجھیں گے، ١٤. امانت میں خیانت بڑھ جائے گی، ١٥. زکوة دینے کو جرمانہ سمجھیں گے، ١٦. علم دنیا حاصل کرنے کے لئے پڑھیں گے، ١٧. لوگ اپنے ماں باپ کی نافرمانی اور ان پر سختیاں کریں گے، ١٨. مرد عورت کا فرنمابردار اور ماں باپ کا نافرمان ہو گا اور دوست کو نزدیک اور باپ کو دور کرے گا، ١٩. مسجدوں میں لوگ شور کریں گے، ٢٠. فاسق لوگ قوم کےسردار ہوں گے اور رذیل لوگ قوم کے ضامن ہوں گے، ٢١. بدی کے خوف سے شریر آدمی کی تعظیم کی جائے گی، ٢٢. باجےعلانیہ ہوں گے، گانے بجانے اور ناچ رنگ کی زیادتی ہو جائےگی، ٢٣. امت کے پچھلے لوگ پہلے بزرگوں پر لعنت کریں گے، ٢٤. سرخ آندھی، ٢٥. زلزلے، ٢٦. زمین میں دھنسنا، ٢٧. صورتیں بدل جانا، ٢٨. پتھر برسنا وغیرہ دیگر علامات ظاہر ہوں گی اور اس طرح پے درپےآئیں گی، جس طرح دھاگا ٹوٹ کر تسبیح کے دانے گرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اچھے کام اٹھتے جائیں گے اور برے کاموں اور گناہوں کی کثرت ہوتی جائے گی، ٢٩. نصاریٰ تمام ملکوں پر چھا جائیں گے، ٣٠. مسلمانوں میں بڑی ہل چل مچ جائے گی اور گبھرا کر حضرت امام مہدی علیہ السلام کی تلاش میں مدینہ منورہ میں آئیں گے اور امام مہدی علیہ السلام مکہ چلے جائیں گے۔ بعض اور علامات بھی ہوں گی مثلاً ٣١. درندے جانور آدمی سے کلام کریں گے، ٣٢. کوڑے پر ڈالی ہوئی جوتی کا تسمہ کلام کرے گا اور آدمی کو اس کے گھر کے بھید بتائے گا۔ بلکہ خود انسان کی ران اُسے خبر دے گی، ٣٣. وقت میں برکت نہ ہو گی، سال مہینے کی مانند اور مہینہ ہفتہ کی اور ہفتہ دن کی مانند ہو گا اور دن ایسا ہو جائے گا جیسا کہ کسی چیز کو آگ لگی اور جلدی بھڑک کر ختم ہو گئی، ٣٤. ملک عرب میں کھیتی اور باغ اور نہریں ہو جائیں گی، مال کی کثرت ہو گی، ٣٥. نہر فرات اپنے خزانے کھول دے گی کہ وہ سونے کے پہاڑ ہوں گے، ٣٦. اس وقت تک تیس بڑے دجال ہوں گے وہ سب نبوت کا دعویٰ کریں گے حالانکہ نبوت حضور انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر ختم ہو چکی ہے، ان میں سے بعض گزر چکےہیں مثلاً مسیلمہ کذاب، طلحہ بن خولید، اسودعنسی، سجاح عورت جو کہ بعد میں اسلام لے آئی وغیرہم اور جو باقی ہیں ضرور ہوں گے اور بھی بہت سی علامات حدیثوں میں آئی ہیں ۔ جیسے مدینہ کی ویرانی ۔ خانہ کعبہ کو ڈھانے جیسے دلخراش واقعات بھی وقوع پذیر ہوں گے۔ اسی طرح بڑی نشانیوں میں امام مہدی و عیسی علیہ السلام کا ظہور۔ دجال و یاجوج ماجوج کا خروج اور دبۃالارض کا ظاہر ہونا وغیرہ بھی شامل ہے۔اب ان میں سے ہر نشانی کی اپنی تفصیل ہے ۔ ان نشانیوںمیں سے علامات صغری میں سے بہت کچھ وقوع پذیر ہوچکا ہے جبکہ بڑی بڑی نشانیوں کا ظہور ابھی باقی ہے۔ میں نے بعض اسلامی کتب میں کچھ علماء کے اقوال پڑھے ہیں۔ ان لوگوں نے علم ریاضی ' قرآن کی قیامت والی آیات اور قیامت والی احادیث سے کچھ حساب لگایا ہے۔ ویسے بھی قرآن میں ہر بات کا علم موجود ہے ۔ لیکن غور خوض کرنے کی ضرورت ہے ۔ بہرحال ان کے حساب کے مطابق 1900 ہجری میں حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کی پیدائش ہوگی اور وہ 63 برس دنیا میں رہیں گے اور حضرت عیسی علیہ السلام بھی ان کی زندگی میں ہی آسمان سے تشریف لائیں گے۔ اور وہ بھی 40 سال اس دنیا میں زندہ رہ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ میں مدفون ہوں گے ۔ اس کے بعد قیامت بالکل قریب ہوگی۔ یعنی اس حساب کے مطابق ابھی 1436 سن ہجری چل رہا ہے۔ اس حساب سے تقریبا 464 سال بعد حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔ اور اس کے بعد 63 سالہ ان کی زندگی ۔ اور پھر کچھ علامات قیامت کا ظہور ہوگا۔ اور پھر کہیں جاکر قیامت قائم ہوگی۔(واللہ تعالی اعلم)۔جب کہ حدیث میں یہ بھی موجود ہے کہ لوگ قیامت کے ذکر سے بالکل غافل ہو چکے ہوں گے۔ تب قیامت قائم کردی جائے گی۔ بہرحال میرے خیال میں قیامت میں ابھی تقریبا 600سال سے زائد عرصہ باقی ہے۔( میرا یہ صرف اندازہ ہے اصل حقیقت اور تاریخ اللہ ہی بہتر جانتا ہے) اور بحثیت مسلمان اس ڈومز ڈے تھیوری میں کوئی سچائی نہیں ۔اور قیامت کی صیحح تاریخ اللہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔بعض علماء نے لکھا ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو قیامت کی تاریخ بھی بتا دی گئی تھی ۔جیسے 10 محرم جمعہ کا دن اور مہینہ بتا دیا گیا تھا۔ لیکن اللہ تعالی نے ان کو عام لوگوں کو بتانے سے منع فرما دیا تھا۔ کہ یہ اسرار الہی میں سے ایک راز ہے۔بے شک اللہ ہی کے سارے علم کے خزانے ہیں جس کو جتنا عطاء کرے۔ کہ عقل والوں کے لئے اس میں بہت سے نشانیاں ہیں۔ واللہ تعالی اعلم

مایا تہذیب

0 comments
مایا تہذیب
مایا تہذیب مایا تہذیب (Maya civilization) ایک قدیم میسوامریکی تہذیب ہے جو شمال وسطی امریکہ میں پھیلی ہوئی تھی۔ اس علاقے میں آجکل میکسیکو، ہونڈوراس، بیلیز اور گوئٹے مالا کی ریاستیں موجود ہیں۔مایائی تہذیب کو ترقی یافتہ دور و تہذیب کا درجہ دیا جاتا ہے۔۔مایائی تہذیب کا راج1300قبل از مسیح سے300 تک کے درمیانی عرصہ میں تھا۔مایائی لوگ و تہذیب پانچ لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلے ہوئے تھے۔یہ توہم پرست لوگ تھے کیونکہ وہ سورج ،زمین ،بارش ،اگ و پانی کو دیوتا کا درجہ دیتے تھے۔ یہ مایائی مفکرین تھے جنہوں نے سال کو کچھ دنوں کے فرق سے365 دنوں میں تقسیم کیا تھا۔یوں یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان لوگوں کا فلکیاتی علم اور تخیل کتنا نفیس بابصیرت اور وسیع الخیال تھا۔وہ سورج چاند کی گردش پر سیر حاصل معلومات رکھتے تھے۔مایائی تہذیب کے وارث آج بھی جزیرہ نمائے یوکاٹن پر موجود ہیں۔ اس دوران انہوں نے بڑے علاقوں میں شہری تعمیرات کی۔ اسی دور میں انہوں نے یادگاری تحریریں چھوڑیں اور اسی دور میں انہوں نے اپنی تہذیب اور تمدن کو باقاعدہ ریکارڈ کیا۔ مایا تہذیب میسو امیریکن کی دیگر اقوام سے یوں ممتاز تھی کہ انہوں نے بہت پہلے لکھنا سیکھ لیا تھا۔ ان کا اپنا طرز تحریر تھا۔ اس کے علاوہ ریاضی میں بھی ان کی ترقی حیرت انگیز تھی نہ صرف یہ کہ انہوں نے نمبروں کو لکھنا سیکھ لیا تھا بلکہ یہ صفر کے استعمال سے بھی واقف تھے۔ فلکیات، طبیعیات، جراحت اور ذراعت میں ان کی ترقی حیران کن تھی۔ ان کی تہذیبی اور ثقافتی برتری نے اردگرد کی دیگراقوام کو بھی متاثر کیا، یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا حتی کہ ہسپانوی نوآبادکار ان علاقوں میں پہنچی اور مایا تہذیب کو بزور طاقت زوال پذیر ہونے پر مجبور کیا گیا۔ مایا اقوام کے صحائف ڈھونڈ ڈھونڈ کر جلائے گئے، ان کی تعمیرات کو نقصان پہنچایا گیا اور ان کی زبان اور مذہبی رسومات کو شیطانی قرار دے دیا گیا۔ مایا تہذیب زوال پذیر ہوئی مگر مایا قوم کی اولادیں آج بھی میسو امریکن علاقوں میں موجود ہیں۔ ان میں سے بہت سارے لوگ ابھی بھی مایا مذہب کی بہت سی رسومات پر عمل کرتے ہیں مگر مایا کے پیچیدہ رسم الخط کو وہ بھول چکے ہیں۔

دنیا کے سات حصے کیوں

0 comments

دنیا کے سات حصے کیوں
 دنیا کو ماہرین نے سات حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ جن کو ہم برِاعظم کہتے ہیں۔ "بر "کا مطلب خشکی ہے ۔ اور اعظم بہت بڑے کو کہتے ہیں ۔ تو براعظم کا مطلب ہوا ۔ خشکی کا بہت بڑا ٹکڑا جس کے اردگرد پانی ہو۔دنیا کو سات براعظموں میں اس لئے تقسیم کیا گیا ہے کہ زمین کا ایک بہت بڑا علاقہ جو عام خیال سے سمندر میں گھرا ہوا ہوتا ہے ، براعظم کہلاتا ہے۔دوسرے لفظوں میں آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ دنیا سات بڑے جزیروں پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے دنیا کو سات حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس تعریف کے مطابق سات براعظم ہیں۔ ایشیا ، یورپ ، افریقہ ، انٹارکٹیکا ، آسٹریلیا ، شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ۔ جبکہ زمین کے چھوٹے چھوٹے جزیروں کو قریب کے بڑے براعظموں میں شمار کرلیا جاتا ہے۔ مگر بہت سے ماہرین کے نزدیک یہ خیال درست نہیں کیونکہ یورپ اور ایشیا روس کے کچھ زمینی راستوں سے جڑے ہوئے ہیں اور یوریشیا کہلاتے ہیں۔ اسی طرح جنوبی امریکہ اور شمالی امریکہ بھی جڑے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض ماہرین کے نزدیک براعظموں کی اصل تعداد پانچ ہی سمجھی جاتی ہے۔ یعنی ۔افریقہ ۔ یوریشیا ء۔ امریکہ۔ انٹارکٹکا ۔ آسٹریلیا اگر آپ اولمپک کے نشان یعنی پانچ سرکلز کو دیکھیں تو اس بھی ظاہر ہوتا ہے کہ براعظم پانچ ہی ہیں۔ کیونکہ اولمپک تنظیم کا نشان پانچ براعظموں کے لئے پانچ دائروں پر مشتمل ہے۔ پانچ براعظموں کی نمائندگی کرنے والا اولمپک تنظیم کا نشان رقبے اور آبادی دونوں لحاظ سے سب سے بڑا براعظم یوریشیاء ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت ایشیا میں رہتی ہے۔ ساتوں براعظم مل کر زمین کا صرف ایک تہائی بنتے ہیں اور باقی حصہ سمندروں پر مشتمل ہے۔ ویسے تو ہر براعظم پر ایک الگ پوسٹ ہونی چاہئے لیکن یہاں آپ کی دلچسپی کے لئے ان تمام براعظموں کا مختصر جائزہ پیش کررہا ہوں۔ 1۔براعظم ایشیاء ایشیاء دنیا کا سب سے بڑا اور زیادہ آبادی والا براعظم ہے۔ یہ زمین کے کل رقبے کا 8.6 فیصد، کل بری علاقے کا 29.4 فیصد اور کل آبادی کے60 فیصد حصے کا حامل ہے۔ ایشیاء روایتی طور پر یوریشیا کا حصہ ہے جس کا مغربی حصہ یورپ ہے۔ ایشیاء نہر سوئز کے مشرق، کوہ یورال کے مشرق اور کوہ قفقاز یا کوہ قاف ، بحیرہ قزوین اور بحیرہ اسود کے جنوب میں واقع ہے۔قرون وسطیٰ سے قبل یورپی ایشیاء کو براعظم نہیں سمجھتے تھے تاہم قرون وسطیٰ میں یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے وقت تین براعظموں کا نظریہ ختم ہوگیا اور ایشیاء کو بطور براعظم تسلیم کر لیا گیا۔ افریقہ اور ایشیا کے درمیان سوئز اور بحیرہ قلزم کو سرحد قرار دیا گیا جبکہ یورپ اور ایشیا کے درمیان سرحد درہ دانیال، بحیرہ مرمرہ، باسفورس، بحیرہ احمر، کوہ قفقاز، بحیرہ قزوین، دریائے یورال اور کوہ یورال سے بحیرہ کارہ تک پہنچتی ہے۔عام طور پر ماہر ارضیات و طبعی جغرافیہ دان ایشیاء اور یورپ کو الگ براعظم تصور نہیں کرتےاور ایک ہی عظیم قطعہ زمین کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ 2۔یورپ یورپ (europe) دنیا کے سات روایتی براعظموں میں سے ایک ہے تاہم جغرافیہ دان اسے حقیقی براعظم نہیں سمجھتے اور اسے یوریشیا کا مغربی جزیرہ نما قرار دیتے ہیں۔ اصطلاحی طور پر کوہ یورال کے مغرب میں واقع یوریشیا کا تمام علاقہ یورپ کہلاتا ہے۔یورپ کے شمال میں بحر منجمد شمالی، مغرب میں بحر اوقیانوس، جنوب میں بحیرہ روم اور جنوب مشرق میں بحیرہ روم اور بحیرہ اسود کو ملانے والے آبی راستے اور کوہ قفقاز ہیں۔ مشرق میں کوہ یورال اور بحیرہ قزوین یورپ اور ایشیا کو تقسیم کرتے ہیں۔یورپ رقبے کے لحاظ سے آسٹریلیا کو چھوڑ کر دنیا کا سب سے چھوٹا براعظم ہے جس کا رقبہ ایک کروڑ چالیس لاکھ مربع کلومیٹر ہے جو زمین کے کل رقبے کا صرف دو فیصد بنتا ہے۔ یورپ سے بھی چھوٹا واحد براعظم آسٹریلیا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ تیسرا سب سے بڑا براعظم ہے جس کی آبادی 71 کروڑ ہے جو دنیا کی کل آبادی کا 11 فیصد بنتا ہے۔ 3۔افریقہ افریقہ (africa) رقبے کے لحاظ سے کرہ ارض کا دوسرا بڑا بر اعظم، جس کے شمال میں بحیرہ روم، مشرق میں بحر ہند اور مغرب میں بحر اوقیانوس واقع ہے۔ دلکش نظاروں، گھنے جنگلات، وسیع صحراؤں اور گہری وادیوں کی سرزمین جہاں آج 53 ممالک ہیں جن کے باسی کئی زبانیں بولتے ہیں۔افریقہ کے شمالی اور جنوبی حصے نہایت خشک اور گرم ہیں جن کا بیشتر حصہ صحراؤں پر پھیلا ہوا ہے۔ خط استوا کے ارد گرد گھنے جنگلات ہیں۔ مشرقی افریقہ میں عظیم وادی الشق کے نتیجے میں گہری وادیاں تشکیل پائیں جن میں کئی بڑی جھیلیں بھی واقع ہیں۔ مشرق میں عظیم وادی الشق ہے، جو دراصل زمین میں ایک عظیم دراڑ کے نتیجے میں وجود میں آئی۔ یہ عظیم دراڑ جھیل نیاسا سے بحیرہ احمر تک پھیلی ہوئی ہے۔ اگر یہ دراڑ مزید پھیلتی گئی تو ایک دن قرن افریقہ براعظم سے الگ ہو جائے گا۔ براعظم کے مغرب میں دریائے نائجر بہتا ہے جو وسیع دلدلی ڈیلٹا بناتا ہوا بحر اوقیانوس میں جا گرتا ہے۔اس کے مشرق میں دریائے کانگو افریقہ کے گھنے استوائی جنگلات سے گزرتا ہے۔ براعظم کے مشرقی حصے میں عظیم وادی الشق اور ایتھوپیا کے بالائی میدان ہیں۔ قرن افریقہ براعظم کا مشرق کی جانب آخری مقام ہے۔ صحرائے اعظم شمالی افریقہ کے بیشتر حصے پر پھیلا ہوا دنیا کا سب سے بڑا صحرا ہے۔ اس عظیم صحرا کا ایک چوتھائی حصہ ریتیلے ٹیلوں پر مشتمل ہے جبکہ بقیہ پتھریلے خشک میدان ہیں۔ براعظم کے دیگر بڑے صحراؤں میں نمیب اور کالاہاری شامل ہیں۔ صحرائے اعظم پر پوسٹ گزر چکی ہے۔ 4۔انٹارکٹکا انٹار کٹکا پر پوری ایک پوسٹ گزر چکی ہے اس کو بھی آپ ضرور پڑھیں۔ مختصر یہ کہ انٹارکٹکا دنیا کا انتہائی جنوبی براعظم ہے جہاں قطب جنوبی واقع ہے۔ یہ دنیا کا سرد ترین، خشک ترین اور ہوا دار ترین براعظم ہے جبکہ اس کی اوسط بلندی بھی تمام براعظموں سے زیادہ ہے۔ 14.425 ملین مربع کلومیٹر کے ساتھ انٹارکٹکا یورپ اور آسٹریلیا دنیا کا تیسرا سب سے چھوٹا براعظم ہے۔ انٹارکٹکا 98 فیصد برف سے ڈھکا ہوا ہے۔ یہاں کوئی باقاعدہ و مستقل انسانی بستی نہیں۔انٹارکٹکا یونانی لفظ Antarktikos سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے آرکٹک کے مدمقابل۔اس براعظم کو پہلی بار روسی جہاز راں میخائل لیزاریف اور فابیان گوٹلیب وون بیلنگشاسن نے 1820ء میں دیکھا۔ 5۔براعظم آسٹریلیا یہ براعظم ملک آسٹریلیا اور قریبی جزائر ریاست تسمانیا (tasmania)، نیو گنی (new guinea)، جزائر ارو(aru islands) اور جزائر راجہ امپت (raja ampat islands) پر مشتمل براعظم ہے۔ اس براعظم کے بڑے شہروں میں سڈنی, ملبورن, برسبین, ایڈیلیڈ, گولڈ کوسٹ, کینبرا, وولونگانگ شامل ہیں۔اس کا کل رقبہ 84 لاکھ 68 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے ۔ جو دنیا کا سب سے چھوٹا براعظم ہے۔ 6۔جنوبی امریکہ براعظم جنوبی امریکہ ۔جنوبی امریکہ مغربی نصف کرہ میں واقع ایک براعظم ہے جس کا بیشتر حصہ جنوبی کرہ ارض میں واقع ہے۔ مغرب میں اس براعظم کی سرحدیں بحر الکاہل اور شمال اور مشرق میں بحر اوقیانوس اور شمالی امریکہ اور شمال مغرب میں بحیرہ کیریبیئن سے ملتی ہیں۔ جنوبی امریکہ کا نام شمالی امریکہ کی طرح یورپی جہاز راں امریگو ویسپوچی کے نام پر رکھا گیا جس نے پہلی مرتبہ یہ انکشاف کیا کہ امریکہ دراصل ہندوستان نہیں بلکہ ایک نئی دنیا ہے جسے یورپی نہیں جانتے۔ 7۔شمالی امریکہ شمالی امریکہ دنیا کے 7 براعظموں میں سے ایک براعظم ہے۔ اس براعظم میں کینیڈا اور امریکہ اہم ممالک ہیں۔ اس براعظم کے قدیم باشندوں کو سرخ ہندی( Red Indians ) قوم کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس قوم کو نوآبادکار یورپیوں نے قتل عام کے بعد تقریباً ختم کردیا تھا

کانِ میر۔ ہیرے کی مائین

0 comments

کانِ میر۔ ہیرے کی مائین Mir Mine کانِ میر دنیا میں ہیرے کی سب سے بڑی کان ہے۔جو کہ مشرقی سائبیریا روس میں واقع ہے۔ اس کی گہرائی 525 میٹریا 1722 فٹ اور چوڑائی 1200میٹر یا 3900 فٹ ہے۔ جو کہ ایک کلومیٹر سے بھی زائد بنتی ہے۔ یہ دنیا کا دوسرابڑا سوراخ بھی کہلاتا ہے۔ذہن میں رہے کہ دنیا کا سب سے بڑا سوراخ بنگھم کنیون مائین ہے جو کہ کاپر کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ کانِ میرسائبیریا کے اطراف موجود شہر ’’ڈائمنڈ سٹی‘‘ کہلاتا ہے اور اس میں چلنے والی ہوا کے بگولے اتنے شدید ہوتے ہیں کہ وہ ایک ہیلی کاپٹر کو نگل سکتے ہیں اور اسی وجہ سے ہیلی کاپٹر اس کے اوپر پرواز نہیں کرتے۔ 1722 فٹ گہری اس کان سے دنیا کے 25 فیصد ہیرے نکالے جاتے ہیں۔ تاریخی طور پر اسی کان سے روس نے دوسری عالمی جنگ کے بعد ہونے والا نقصان پورا کرکے اپنی معیشت کو سہارا دیا تھا۔ اگرچہ 2004 میں یہ کان اوپر سے بند کردی گئی تھی لیکن اس میں اب زیرِ زمین کئی سرنگیں کھودی گئی تھیں اور سال 2014 میں ان سے 60 لاکھ قیراط کے خام ہیرے نکالے گئے تھے۔ اب اس کان میں ممکنہ طور پر ہیرے کے کتنے ذخائر ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ یوں لگایا گیا ہے اس میں 13 ارب ڈالر کے ہیرے اب بھی موجود ہیں جو پاکستانی روپوں میں 13 کھرب کی غیرمعمولی رقم ہے۔ ماسکو سے 5 ہزار میل دور اس کان کے اوپر اڑنے والے کئی ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد تباہ ہوچکے ہیں کیونکہ کان کی ساخت میں ہوا بگولے کی صورت میں چلتی ہے جو ہیلی کاپٹروں کو نیچے کی جانب کھینچ لیتی ہے۔ روسی کمپنی الروسا اس کان کی مالک ہے۔ 2010 میں ایک اور کمپنی نے متروک کان پر شمسی پینل کا ایک گنبد لگا کر ایک لاکھ لوگوں تک بجلی پہنچانے کے منصوبے کا اعلان کیا تھا۔ کان سے اب تک سب سے بڑا ہیرا 130.85 قیراط کا نکالا گیا ہے جو سائز میں گولف کی ایک گیند کے برابر تھا۔ اسے روس کے 3 ارضیات دانوں نے دریافت کیا تھا اور اس دریافت پر انہیں روس کا سب سے بڑا اعزاز ’’لینن انعام‘‘ دیا گیا تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جوزف اسٹالن نے اسی کان کے ہیروں سے اپنی معیشت بہتر کی تھی اور ملک کی تعمیر کی تھی۔یہ کان مستقل برف میں رہنے والے علاقے میں دریافت کی گئی اور برف ہٹانے کے لیے ڈائنامائٹ کی بڑی مقدار استعمال کی گئی تھی۔

ٹمبکٹو

0 comments

ٹمبکٹو ٹمبکٹو کا نام سنتے ہی ذہن میں ایک پراسرار، رومانوی اور دیومالائی مقام کا تصور آ جاتا ہے۔بہت سوں کا تو یہ خیال تھا کہ شاید یہ کسی جغرافیائی مقام نہیں بلکہ کوئی داستانوی نام ہے۔ آج اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو اس کے بارے کچھ دلچسپ و عجیب بتاتے ہیں۔ یہ افریقی ملک مالی کا اینٹ پتھر سے بنا ہوا شہر ہے جہاں ہماری آپ ہی کی طرح کے انسان رہتے ہیں۔اس علاقے کے افسانوں کا چرچہ 1390ء سے شروع ہوا جب یہاں کے سردار مانسا موسا نے حج کے لیے مکہ کا سفر شروع کیا۔ راستہ میں مصر پہنچنے پر انہوں نے اتنا سونا بانٹا کہ مصر کی کرنسی اپنی قدر کھو بیٹھی۔ اس سے لوگوں میں ٹمبکٹو کے بارے میں افسانے مشہور ہونے شروع ہو گۓ کہ افریقہ کے وسط میں ٹمبکٹو نام کا ایک ایسا شہر بستا ہے جہاں سڑکیں اور مکانوں کی چھتیں تک سونے کی بنی ہوئی ہیں۔ آکسفرڈ ڈکشنری میں ٹمبکٹو کا مطلب لکھا ہوا ہے ایسی جگہ جو بے حد دور افتادہ، دشوار گزار اور دنیا کے دوسرے کونے پر آباد ہو۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے، ’ارے بھائی، دو ماہ سے تمھارا کوئی اتا پتا نہیں، کہیں ٹمبکٹو تو نہیں چلے گئے تھے؟ انگریزی زبان میں یہ لفظ انیسویں صدی میں ان معنی میں استعمال ہونا شروع ہوا۔ اس کے بعد سے الفریڈ ٹینی سن، ڈی ایچ لارنس اور اگاتھا کرسٹی جیسے مشاہیر نے اسے اپنی تحریروں میں استعمال کیا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ٹمبکٹو کا یہ مطلب کیسے پیدا ہو گیا کیوں کہ دنیا میں اس سے بھی زیادہ دور افتادہ اور دشوار گزار جگہیں موجود ہیں؟ ٹمبکٹو شہر کو 12ویں صدی میں طوارق قوم نے آباد کیا تھا۔ یہ شہر سونے اور نمک کے تجارتی قافلوں کی گزرگاہوں کے سنگم پر واقع تھا، اس لیے کچھ ہی عرصے کے بعد یہ پھلنا پھولنا شروع ہو گیا اور تمام علاقے کا سب سے مالدار اور اہم شہر بن گیا۔اس شہر کی ثروت مندی کے قصے جب یورپ پہنچے تو وہاں کے مہم جوؤں اس تک پہنچنے کے لیے کمربستہ ہو گئے۔ تاہم ٹمبکٹو چوں کہ صحرائے اعظم صحارا کے اندر واقع تھا اس لیے بہت سی مہماتی ٹیمیں یہاں تک پہنچنے میں ناکام رہیں اور صحرا میں بھٹک کر رہ گئیں۔ صحرائے اعظم پر دلچسپ معلومات پیج پر ایک پوسٹ موجود ہے۔ یہ صحرا دنیا کا سب سے بڑا صحرا ہے۔ آکسفرڈ یونیورسٹی کے ایڈیٹر رچرڈ شپیرو کہتے ہیں کہ سب سے پہلے یورپی 1830 میں ٹمبکٹو پہنچے۔ اس سے پہلے یورپ میں صرف اس شہر کا تذکرہ صرف ان مہم جو ٹیموں کے حوالے سے ہوتا تھا جو وہاں پہنچنے میں ناکام رہیں۔1820ء میں لوگ کہتے تھے کہ یہ طرابلس سے 60 دنوں کی مسافت پر واقع ہے جس میں سے چھ دن ایسے بھی آتے ہیں جب پانی دستیاب نہیں ہوتا۔شپیرو کہتے ہیں کہ انگریزوں کا خیال تھا کہ ٹمبکٹو سے انھیں ایسی مال و دولت ملے گی جیسے سپین کو جنوبی امریکہ میں حاصل ہوئی تھی۔ تاہم وہ صدیوں کی کوششوں کے باوجود وہاں پہنچنے میں ناکام رہے اس لیے اس شہر کا مطلب ہی کسی ناقابلِ حصول جگہ کے مترادف ہو گیا۔ ٹمبکٹو وسطی افریقہ میں اسلامی تہذیب کا مرکز رہا ہے۔ یہاں پر جامعہ سنکوری کے نام سے ایک دینی یونیورسٹی قائم تھی جہاں دور دراز سے طلبہ حصولِ علم کے لیے آتے تھے۔ یہاں کی 60 کتب خانوں میں سات لاکھ سے زائد صدیوں پرانی کتب موجود ہیں۔ اس کے علاوہ درجنوں تاریخی عمارات ہیں جن کا طرزِ تعمیر اپنی مثال آپ ہے۔ یونیسکو نے ٹمبکٹو کو عالمی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔