
1۔ آج کے دور میں بھی وارن بفٹ کے پاس سمارٹ موبائل فون نہیں ہے۔
2۔ اس کے آفس میں اس کے ڈیسک پر کمپیوٹر تک موجود نہیں ہے۔
3۔ 2006 تک وہ اپنی گاڑی بھی خود چلاتا تھا۔ یعنی اس نے کوئی ڈرائیور بھی نہیں رکھا تھا۔ اب بڑھاپا ہونے کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر سکتا۔
4۔ بل گیٹس کی طرح اس نے بھی اربوں روپے خیراتی کاموں میں خرچ کئے ہیں اور اب بھی کررہا ہے۔
5۔ دس سال کی عمر سے ہی وارن بفٹ نے نیویارک سٹاک ایکس چینج کے لوگوں کے ساتھ لنچ کرکے اپنے زندگی کے مقاصد طے کرنے شروع کردئیے تھے جبکہ بچے ہالی وڈ کے کارٹون اور مویز کے شوقین ہوتے ہیں۔
6۔ اس نے اپنا سب سے پہلا سٹاک 11 سال کی عمر میں خریدا تھا۔
7۔ کچھ عرصہ یہ لوگوں کے گھروں میں وال
8۔ اس نے آج تک صرف ایک ای میل بھیجی ہے۔
9۔ وہ اپنے دن کا اسی فیصد حصہ کتاب پڑھنے میں گزارتا ہے۔
10۔ وارن بفٹ نے 2013 میں 37 ملین ڈالر اوسطاً ایک دن میں کمائے تھے۔ جو کہ پاکستانی 3 ارب 88 کروڑ روپے بنتے ہیں۔ یعنی ایک دن میں اتنے پیسے۔
11۔ وارن بفٹ کا آئیڈیل بنجمن گراہم تھا۔ جو کہ ایک مشہور کتاب "دی انٹیلیجنٹ انوسٹر" کا مصنف تھا۔ وارن بفٹ اس کے نظریات سے بہت متاثر تھا۔ اور اس کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا تھا۔ چونکہ بنجمن گراہم ایک یہودی تھا اور وہ کسی عیسائی کے ساتھ کام کرنے کو تیار نہ تھا۔ اس لئے اس نے وارن بفٹ کی درخواست کو رد کردیا۔ بعد میں وارن بفٹ نے اسی بنجمن کے بزنس کے نظریات کو فالو کرکے جب بہت ترقی کرلی۔ تو اسی بنجمن گراہم کووارن بفٹ نے اپنا ملازم رکھ لیا۔ جس نے کبھی وارن بفٹ کو اپنا اسٹنٹ رکھنے سے انکار کیا تھا۔
اس کی خیرات کے بارے کچھ مزید معلومات
بل گیٹس اور وارن بفٹ دنیا کی امیر ترین شخصیات ہیں‘ بل گیٹس مائیکرو سافٹ کے بانی ہیں جب کہ وارن بفٹ سرمایہ کاری کی درجنوں کمپنیوں کے مالک ہیں‘ یہ دونوں دنیا میں سب سے زیادہ خیرات کرنے والے لوگ بھی ہیں۔
بل گیٹس 95 فیصد جب کہ وارن بفٹ 99 فیصد دولت دنیا کے غریبوں کے لیے وقف کر چکے ہیں‘ بل گیٹس اور وارن بفٹ نے 2010ء میں’’ دی گیونگ پلیج‘‘ کے نام سے دنیا کا سب سے بڑا خیراتی ادارہ بنایا‘ یہ ادارہ ’’بلینر کلب‘‘ بھی کہلاتا ہے‘ اس کلب کی ممبر شپ کی صرف دو شرائط ہیں
ایک:۔ دنیا کے صرف ارب پتی لوگ اس کلب کے رکن بن سکتے ہیں۔
دو:۔ یہ کلب صرف ان ارب پتی لوگوں کے لیے اپنے دروازے کھولتا ہے جو اپنی دولت کا کم از کم آدھا حصہ خیرات کرنے کے لیے تیار ہوں‘
’’دی گیونگ پلیج‘‘ چیرٹی کے لیے ریسرچ بھی کرتا ہے‘ یہ ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہیں‘ یہ ماہرین پوری دنیا کا سروے کرتے ہیں اور اس کے بعد اپنے ڈونر کو وہ شعبے بتاتے ہیں جن میں یہ اپنی دولت لگا سکتے ہیں مثلاً آپ بل گیٹس کو لے لیجیے‘ یہ پوری دنیا کے بچوں کے لیے ویکسین تیار کرتے ہیں‘ بل گیٹس نے دسمبر 1999ء میں پولیو کے خلاف جہاد شروع کیا‘ پولیو اس وقت 127 ممالک میں موجود تھا‘ بل گیٹس نے اربوں روپے کی پولیو ویکسین تیار کرائی اور عالمی ادارہ صحت کی مدد سے یہ ویکسین بچوں تک پہنچانا شروع کر دی‘ آج بل گیٹس کی وجہ سے پولیو صرف تین ممالک پاکستان‘ افغانستان اور نائیجیریا تک محدود ہے‘ بل گیٹس ان ممالک کو بھی پولیو فری بنانا چاہتے ہیں‘ یہ پاکستان کے ہر وزیراعظم سے ملاقات کرتے ہیں اور صرف ایک ہی درخواست کرتے ہیں ’’آپ مہربانی کر کے پولیو ورکرز کو تحفظ دیں تا کہ ہم آپ کے ملک سے پولیو ختم کر سکیں‘‘ حکومت کوشش کر رہی ہے لیکن شکیل آفریدی کی ’’مہربانی‘‘ سے ہمارے لاکھوں بچوں کی زندگیاں خطرات کا شکار ہو چکی ہیں۔
(جاوید چودھری کے کالم سے اقتباس)
میں اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو ضمناً شکیل آفریدی کے متعلق بھی بتاتا چلوں۔ شکیل آفریدی این جی او ’’سیو دی چلڈرن‘‘ کا ملازم تھا‘ اس نے پولیو ویکسی نیشن کی جعلی مہم تیار کی‘ ایبٹ آباد کی دو ایل ایچ ڈبلیوز آمنہ بی بی اور بخت بی بی کی خدمات حاصل کیں‘ یہ خواتین اسامہ بن لادن کے گھر میں داخل ہوئیں‘ اسامہ کے بچے کا ڈی این اے لیا‘ یہ ڈی این اے اسامہ کے ڈی این اے سے میچ ہو گیا اور امریکا نے خون کے اس قطرے کی بنیاد پر اسامہ بن لادن کے گھر پر حملہ کر دیا‘ بقول امریکہ اسامہ بن لادن مارے گئے۔ جس کا کوئی ثبوت بھی نہیں دیا گیا۔ لیکن پاکستان کے لاکھوں بچوں کی زندگیاں اندیشوں میں گھر گئیں‘ کیونکہ اسامہ بن لادن کو ہیرو ماننے والے آج پولیو ورکرز کو شکیل آفریدی سمجھ کر ان پر حملے کر رہے ہیں ‘ ان حملوں میں پولیو ورکرز اور ان کے محافظ قتل ہوتے ہیں۔
ایک اور بات بھی ذہن میں رہے پاکستان کے لوگ بھی بہت زیادہ خیرات کرتے ہیں۔ لیکن اس کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا ملک ریٹنگ میں نیچے آتا ہے۔ پھر بھی 2014ء میں پاکستان سب سے زیادہ خیرات کرنے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر تھا۔ ہمارے ملک کے 80 فیصد لوگ چیرٹی کرتے ہیں‘ ہمارے ملک کے بھوکے ترین لوگ بھی مساجد مدرسوں اور اپنے خاندان کے غریبوں کو چندہ دیتے ہیں یا دوسروں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ ہسپتال بھی بنواتے ہیں۔ ایمبولنس سروس بھی بناتے ہیں۔ فری اسکول ایجوکیشن بھی دلواتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے مسائل کم نہیں ہورہے۔ اس کی وجہ ہماری کوششوں میں تسلسل اور خیراتی اداروں میں کوآرڈی نیشن اور منصوبہ بندی کی کمی ہے۔ کچھ عرصہ یہ خیراتی کام ہوتے ہیں پھر فنڈز کی کمی کے باعث خیراتی کام یا تو بالکل بند ہوجاتا ہے۔ یا پھر نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔
ہمارے پاکستان میں مذہبی تنظیمیں اور ادارے بڑے منظم ہیں‘ یہ ادارے اور تنظیمیں انتہائی فعال اور متحرک ہیں‘ یہ عام لوگوں سے رابطے میں بھی ہیں لیکن صرف مساجداور مدارس تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں لوگوں کی بہت کم مدد کرتے ہیں۔ جیسے صاف پانی اور خوراک کا حصول۔ منشیات کی روک تھام۔ صفائی کے مسائل۔ قحط زدہ علاقوں میں لوگوں کی مدد۔ چوری ڈکیتی میں حفاظت وغیرہ وغیرہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ مساجد اور مدارس کو چندہ نہیں دینا چاہئیے بلکہ یہ بھی ہمارے معاشرے کا لازمی عنصرہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسرے شعبوں میں بھی عوام کی مدد کرنی چاہئیے۔ صرف حکومت کے اوپر نہیں چھوڑ دینا چاہئیے بلکہ ایک منظم طریقے سے عوام کی ہر شعبے میں مدد کرنی چاہئیے۔ اور یہ صرف کام کی تقسیم سے ہوسکتا ہے۔ یعنی مختلف شعبوں میں سے ایک ایک شعبہ ہر تنظیم آپس میں بانٹ لے۔ تو اس طرح آسانی ہوجائے گی اور وہ تنظیم ایک شعبے میں ماہر بھی ہوجائے گی
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔