dailymotion-domain-verification=dm67ezljlaa1ez90i July 2016 | Daily news

Friday, July 22, 2016

میونخ میں ایک شاپنگ سینٹر پر فائرنگ

0 comments

میونخ میں ایک شاپنگ سینٹر پر فائرنگ

جنوبی جرمن شہر میونخ میں ایک شاپنگ سینٹر پر فائرنگ کے بعد پولیس نے علاقے کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے۔ خبر رساں اداروں کے مطابق اس واقعے میں ایک شخص ہلاک جب کہ دس زخمی ہوئے ہیں۔ 

میونخ کی پولیس کی جانب سے ٹوئیٹر پر ایک پیغام میں اس واقعے کی تصدیق کی گئی ہے اور لوگوں سے اُس علاقے کی جانب جانے سے گریز کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ رواں ہفتے پیر کے روز صوبے باویریا ہی کے شہر ورزبرگ میں ایک افغان مہاجر نوجوان نے ایک ٹرین میں کلہاڑی اور چاقو کے وار کر کے تین افراد کو زخمی کر دیا تھا۔ اسی تناظر میں باویریا صوبے سمیت جرمنی بھر میں سکیورٹی خاصی سخت ہے۔

Thursday, July 21, 2016

کشمیر: بھارتی فورسز نے تمام پاکستانی پرچم اتار دیے

0 comments

کشمیر: بھارتی فورسز نے تمام پاکستانی پرچم اتار دیے

بھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں سکیورٹی فورسز نے وہ تمام پاکستانی پرچم اتار دیے ہیں، جو پاکستان میں بھارت کے خلاف منائے جانے والے ’یوم سیاہ‘ کے موقع پر کشمیریوں نے اپنے گھروں پر لگائے تھے۔
پاکستان میں آج کشمیریوں کے ساتھ ہمدردی کے لیے منائے جانے والے ’یوم سیاہ‘ کے بعد بھارتی فورسز کو خوف ہے کہ ان کے زیر کنٹرول کشمیر میں احتجاجی مظاہروں کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں ’یوم سیاہ‘ منائے جانے کے جواب میں بھارتی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے، ’’اسلام آباد کو بھارت کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرنے اور صورتحال کو غیر مستحکم بنانے سے باز رہنا چاہیے۔‘‘
دوسری جانب پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ کشمیریوں اور بھارت سے آزادی مانگنے والے باغیوں کی اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔
دریں اثناء پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے، ’’کشمیر کو کسی بھی صورت بھارتی کا اندرونی معاملے کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اقوام متحدہ کا ادارہ پہلے ہی اسے ایک متنازعہ علاقہ قرار دے چکا ہے۔‘‘
پاکستانی وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ بھارت نے دنیا سے کشمیر میں ریفرنڈم کروانے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ آج تک ایسا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ گزشتہ گیارہ روز کے دوران بھارتی زیر کنٹرول کشمیر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے نتیجے میں 47 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر تعداد کشمیری نوجوانوں اور نابالغوں کی تھی جبکہ ہلاک ہونے والوں میں ایک پولیس اہلکار بھی شامل ہے۔ اس دوران زخمی ہونے والے شہریوں کی تعداد تقریباﹰ دو ہزار بنتی ہے جبکہ سولہ سو حکومتی سکیورٹی اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔
پولیس کے مطابق ان احتجاجی مظاہروں کے دوران زخمی ہونے والا ایک اور شخص آج سری نگر کے ہسپتال میں دم توڑ گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس شخص کی نماز جنازہ آج اس کے آبائی گاؤں میں ادا کر دی گئی ہے لیکن، جس میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ جنازے میں شریک افراد نے پاکستان کے حق جبکہ بھارت کی مخالفت میں نعرے لگائے۔
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق آج سری نگر میں بہت سے گھروں پر پاکستانی اور سیاہ پرچم لہراتے نظر آئے جبکہ حکومتی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے ایسے تمام جھنڈے اتار دیے۔ اس نیوز ایجنسی کے مطابق بھارتی زیر انتظام کشمیر کے زیادہ تر حصوں سے معلومات حاصل کرنا ناممکن ہو چکا ہے کیوں کہ ان علاقوں میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس معطل ہے۔

اب تک پچاس ہزار سے زائد ترک اہلکار گرفتار یا برطرف

0 comments

اب تک پچاس ہزار سے زائد ترک اہلکار گرفتار یا برطرف

ترکی میں فوجی بغاوت کی حالیہ ناکام لیکن خونریز کوشش کے بعد سے اب تک پچاس ہزار کے قریب سرکاری اہلکاروں اور نجی ملازمین کو گرفتار یا برطرف کیا جا چکا ہے۔ ان وسیع تر گرفتاریوں پر عالمی سطح پرگہری تشویش بھی پائی جاتی ہے۔
ترک دارالحکومت انقرہ سے بدھ بیس جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق گزشتہ جمعے کی رات ترک فوج کے ایک دھڑے کی طرف سے مسلح بغاوت کرتے ہوئے حکومت کا تختہ الٹنے کی جو کوشش کی گئی تھی، اس کے بعد سے پورے ملک میں مختلف شعبوں کے اب تک گرفتار یا برطرف کیے گئے سرکاری اور نجی ملازمین کی تعداد 50 ہزار ہو چکی ہے۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ان پچاس ہزار افراد میں سکیورٹی کے شعبے میں فرائض انجام دینے والے ہزاروں فوجی اور پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جبکہ باقی کا تعلق ملکی عدلیہ اور تعلیم کے سرکاری اور نجی شعبوں سے ہے۔ اے ایف پی کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ صدر رجب طیب ایردوآن کی پارٹی کی موجودہ حکومت کی طرف سے غیر جمہوری اور باغیانہ سوچ رکھنے کے الزام میں جن ہزارہا سرکاری اہلکاروں کو برطرف یا گرفتار کیا گیا ہے، ان کے خلاف یہ اقدامات اس حکومتی پروگرام کا حصہ ہیں، جس کے تحت انقرہ چاہتا ہے کہ ملکی مسلح افواج، سکیورٹی اداروں اور ریاستی نوکر شاہی میں ’تطہیر‘ کا عمل مکمل ہونا چاہیے۔
اس تناظر میں بدھ کے روز صدر ایردوآن نے ایک طرف ناکام بغاوت کے بعد اگر پہلی مرتبہ ملکی سکیورٹی اداروں کے سربراہان کے ایک اجلاس کی صدارت کی تو دوسری طرف عالمی سطح پر اس بارے میں پائی جانے والی تشویش اور بھی زیادہ ہو گئی کہ ترکی میں سکیورٹی اور ریاستی نوکر شاہی میں ’صفائی‘ کے اس عمل کے ساتھ دراصل قانون کی حکمرانی کے اصول کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ایک ترجمان نے آج اس بارے میں کہا، ’’(ہزاروں گرفتاریوں کی صورت میں) ہم ہر روز ایسے نئے اقدامات دیکھ رہے ہیں، جن سے قانون کی بالادستی کے جمہوری ضابطے کی نفی ہوتی ہے اور جو اپنے حجم میں قطعی غیر متناسب ہیں۔‘‘
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ناکام فوجی بغاوت کی کوشش کے دوران ترکی میں 300 سے زائد افراد مارے گئے اور پورے ملک میں بے تحاشا مادی نقصان بھی ہوا۔ سب سے زیادہ نقصان دارالحکومت انقرہ میں ہوا، جہاں جنگی طیارے پروازیں کرتے رہے اور ہیلی کاپٹروں سے ملکی پارلیمان اور پولیس ہیڈکوارٹرز کی عمارات کو نشانہ بنایا گیا۔
انقرہ سے موصولہ رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ ترکی میں اب تک مسلح بغاوت اور ملک سے غداری کے الزام میں مسلح افواج اور عدلیہ کے جن ارکان کو برطرف کر کے حراست میں لیا جا چکا ہے، ان کی تعداد قریب ساڑھے نو ہزار بنتی ہے۔ ان میں 118 جرنیل اور ایڈمرل بھی شامل ہیں جبکہ باقی گرفتار شدگان یا تو فوج اور پولیس کے افسران اور ساپی ہیں یا پھر عدلیہ کے جج اور پراسیکیوٹرز۔
اس کے علاوہ آج بدھ کے روز جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملکی وزارت تعلیم کے جن اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے، ان کی تعداد بھی مزید چھ ہزار کے اضافے کے ساتھ اب 22 ہزار ہو گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ21 ہزار کے قریب افراد کو نجی تعلیمی شعبے میں خدمات انجام دینے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ ان ہزاروں اساتذہ کے لائسنس بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں اور مستقبل میں وہ کسی ترک تعلیمی ادارے میں پڑھا بھی نہیں سکیں گے۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ ترکی میں سرکاری اہلکاروں کے خلاف کس وسیع پیمانے پر اقدامات کیے جا رہے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک ترک وزارت کھیل کے بھی قریب ڈھائی سو اہلکاروں کو ان کے عہدوں سے برطرف کیا جا چکا ہے۔

ترکی میں تین ماہ کے لیے ایمرجنسی نافذ

0 comments

ترکی میں تین ماہ کے لیے ایمرجنسی نافذ

ترکی میں آج جمعرات سے تین ماہ کے لیے ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی ہے۔ حالیہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد انقرہ حکومت مشتبہ منصوبہ سازوں کے خلاف کریک ڈاؤن بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اکیس جولائی بروز جمعرات انقرہ حکومت کے ترجمان نعمان قرطولمس کے حوالے سے بتایا کہ اس ہنگامی حالت کا نفاذ دراصل ملک میں موجود ایک ’متوازی ریاستی ڈھانچے‘ کے خلاف لڑائی ہے۔
انقرہ حکومت یہ اصطلاح ترک مذہبی رہنما فتح اللہ گؤلن اور ان کے حامیوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔ ترک حکومت نے ناکام فوجی بغاوت کا الزام بھی گؤلن پر عائد ہے، جو امریکا میں خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
اسی دوران ترک نائب وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ملک میں ہنگامی حالت کے نفاذ سے بنیادی شہری آزادیوں پر کوئی قدغن نہیں لگائی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس ایمرجنسی کی وجہ سے شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت، اجتماعات اور آزادی صحافت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بدھ کی رات ملک میں ہنگامی حالت نافذ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا تھا کہ ملکی فوج میں شامل تمام ’باغی عناصر‘ کا صفایا کر دیا جائے گا، ’’یہ اقدام (ہنگامی حالت) جمہوریت، قانون اور آزادی کے خلاف نہیں ہے۔‘‘
انقرہ میں صدارتی دفتر سے خطاب میں ایردوآن کا کہنا تھا کہ ہنگامی حالت کا مقصد ملک میں جمہوری اقدار کا تحفظ اور مضبوطی ہے۔ اس موقع پر انہوں نے فوجی بغاوت کی کوشش کے دوران ان افراد کی ہلاکتوں پر اظہار افسوس بھی کیا، جو باغی فوجیوں کے خلاف مزاحمت کے دوران پندرہ جولائی جمعے کی رات مارے گئے تھے۔
ترکی میں ہنگامی حالت کے نفاذ پر جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر نے انقرہ حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ناکام فوجی بغاوت میں شامل عناصر کے خلاف کارروائی کے دوران قانون کی بالا دستی کو یقینی بنائے۔ قبل ازیں جرمن چانسلر بھی کہہ چکی ہیں کہ ترک حکومت کو اس مشکل صورتحال میں صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے قانون کا احترام کرنا چاہیے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ صدر ایردوآن اس ہنگامی حالت کے عرصے کے دوران مؤثر طریقے سے مشتبہ افراد کے خلاف کارروائی کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ سولہ جولائی سے اب تک ترک حکام دس ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کر چکے ہیں، جن میں اعلیٰ فوجی افسران، جج اور اساتذہ بھی شامل ہیں۔
اس حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں چھ سو اسکول بھی بند کر دیے گئے ہیں جبکہ ہزاروں سرکاری ملازمین کو ان کی ملازمتوں سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ کئی حلقوں کے خیال میں ترک صدر کو موقع مل گیا ہے کہ وہ اس کریک ڈاؤن کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین کو آسانی سے نشانہ بنا سکیں۔
صدارتی دفتر سے خطاب میں ایردوآن کا کہنا تھا کہ ہنگامی حالت کا مقصد ملک میں جمہوری اقدار کا تحفظ اور مضبوطی ہے
ایردوآن کے حامیوں نے زور دیا ہے کہ اس ناکام فوجی بغاوت میں شریک افراد کو سزائے موت دی جائے۔ اگرچہ ترکی میں سزائے موت پر عمل درآمد پر پابندی عائد ہے لیکن ترک صدر نے کہا ہے کہ اگر ملکی پارلیمان اس پابندی کو ختم کرتی ہے، تو وہ اس کی اجازت دے دیں گے۔
اسی دوران یورپی یونین نے خبردار کر رکھا ہے کہ اگر ترک حکومت نے سزائے موت پر عائد پابندی کو ختم کیا تو مستقبل میں یورپی یونین میں شمولیت کی خاطر انقرہ کے ساتھ اب تک جاری مذاکرات ختم کر دیے جائیں گے۔

Tuesday, July 19, 2016

دنیا کا سب سے چھوٹا کتا

0 comments
دنیا کا سب سے چھوٹا کتا آج اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو اس وقت زندہ دنیا کے سب سے چھوٹے کتے کے بارے میں بتاتے ہیں جس کو کچھ عرصہ پہلے گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ نادر نمونہ امریکی ریاست پیروٹریکو میں پایا جاتا ہے جسے دنیا کا سب سے چھوٹا کتا ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کتے کے مالک کے نام "ونیسا سملر اور ایڈون ڈاویل " ہیں ۔پیروٹریکو کے رہائشی ونیسا سملر اور ایڈون ڈاویل کے کتے کا قد اتنا چھوٹا ہے کہ اسے ابتدائی عمر میں بوتل کے بجائے آئی ڈراپر کی مدد سے دودھ پلایا جاتا تھا۔ اس کے مالکان نے اس کتے کا نام میراکل ملی رکھا ہے۔ یہ کتا اب 4 سال کا ہوچکا ہے لیکن اس کا قد صرف 3.8 سینٹی میٹر یعنی 2 انچ سے بھی چھوٹا ہے اور اس کا وزن ایک پاؤنڈ یعنی 500 ملی گرام کے برابر ہے۔ گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق یہ اس وقت سب سے چھوٹا زندہ کتا ہے۔میراکل ملی کے مالکان نے اس کا ایک فیس بک پیج بھی بنایا ہے جہاں وہ اپنے دوسر ے پالتو جانوروں کے ساتھ اس کی تصویریں بھی شیئر کرتے ہیں

جرمنی، ٹرین میں خنجر اور کلہاڑی سے حملہ

0 comments
جرمنی، ٹرین میں خنجر اور کلہاڑی سے حملہ،
 چار شدید زخمی جرمنی میں ایک سترہ سالہ افغان پناہ گزین لڑکے نے ایک ٹرین میں مسافروں پر حملہ کرتے ہوئے چار افراد کو شدید زخمی کر دیا ہے۔ بعد ازاں پولیس نے حملہ آور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

جنوبی جرمن صوبہ باویریا کے وزیر داخلہ یوآخم ہیرمان نے بتایا کہ افغان پناہ گزین خنجر اور کلہاڑی سے لیس تھا اور اس نے مسافروں کے زخمی کرنے کے بعد ٹرین سے فرار ہونے کی کوشش کی۔ ان کے بقول پولیس کمانڈو کا ایک خصوصی دستہ اتفاقاً جائے وقوعہ کے قریب ہی موجود تھا اور اطلاع ملنے پر اس نے اس لڑکے کا پیچھا شروع کر دیا۔ اس دوران جیسے ہی اِس پناہ گزین نے پولیس پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو اُسے گولی مار دی گئی۔ ہیرمان نے بتایا کہ اس واقعے کا پس منظر جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ اس بات کا فیصلہ کیا جائے کہ آیا یہ حملہ مذہبی شدت پسندی کی وجہ سے کیا گیا ہے یا پھر اس کا کوئی اور سبب ہے۔ پولیس نے بتایا کہ یہ ٹرین وُورزبرگ نامی شہر سے ٹروئشلنگن جا رہی تھی اور یہ واقعہ گزشتہ شب تقریباً سوا نو بجے پیش آیا۔ عینی شاہدین میں سے ایک شخص کا کہنا ہے کہ افغان پناہ گزین نے حملہ کرنے سے قبل اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا تھا تاہم اس بیان کی دیگر کی جانب سے تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ صوبہ باویریا کے وزیر داخلہ نے کہا کہ اسی بناء پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاید یہ مسلم انتہا پسندی کا ایک واقعہ ہے۔ حکام نے بتایا کہ ٹرین میں کل پچیس مسافر سوار تھے۔ بتایا گیا ہے کہ ٹرین میں سوار دیگر مسافروں میں کسی کو کوئی زخم تو نہیں آیا ہے تاہم وہ سکتے کی حالت میں ہیں۔ پولیس کے مطابق شدید زخمی ہونے والے چار افراد کا تعلق ہانگ کانگ سے ہے جبکہ ایک خاتون حملہ آور کو روکنے کی کوشش کے دوران معمولی سی زخمی ہوئی ہیں۔ تمام زخمیوں کا وُورزبرگ کے ہسپتالوں میں علاج جاری ہے۔ حملہ آور کے بارے میں اتنا معلوم ہو سکا ہے کہ ابھی کچھ دن قبل ہی اس لڑکے کو پناہ گزینوں کے ایک مرکز سے نگہداشت کرنے والے ایک خاندان کے پاس منتقل کیا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق اس لڑکے کے کمرے میں موجود اشیاء کو جائزہ لینے کے بعد ہی واضح ہو سکے گا کہ گزشتہ دنوں کے دوران یہ کن افراد سے رابطے میں تھا اور اس نے انٹرنیٹ پر کون کون سی ویب سائٹس کو دیکھا تھا۔

شمالی کوریا کے بیلاسٹک میزائل کے تجربات، عالمی سطح پر مذمت

0 comments

شمالی کوریا کے بیلاسٹک میزائل کے تجربات، عالمی سطح پر مذمت

شمالی کوریا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بیلاسٹک میزائل کے تین نئے تجربات کیے ہیں۔ عالمی برداری نے کمیونسٹ ریاست کے اس عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے جنوبی کوریا کے میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ شمالی کوریا نے انیس جولائی بروز منگل بیلاسٹک میزائل کے نئے تجربات کیے ہیں۔
ناقدین کے مطابق یہ تین نئے تجربات دراصل جنوبی کوریا میں امریکا کی طرف سے دفاعی میزائل نصب کرنے کا ردعمل ہو سکتے ہیں۔
شمالی کوریا کی طرف سے ان تجربات کے فوری بعد جنوبی کوریا، جاپان اور امریکا نے مذمتی بیانات جاری کیے ہیں۔ عالمی برداری کا کہنا ہے کہ شمالی کوریا کی طرف سے اس ٹیکنالوجی کے تجربات علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے ایک خطرہ ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ منگل کی صبح بحیرہ جاپان میں فائر کیے گئے دو سکڈ میزائل پانچ تا چھ سو کلو میٹر دور جا کر گرے جبکہ تیسرا Rodong میزائل ایک گھنٹے کی تاخیر سے فائر کیا گیا۔
اس بیلاسٹک میزائل کی قوت جانچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ سکڈ میزائل جنوبی کوریا کے کسی بھی علاقے کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
جنوبی کوریا میں امریکی میزائل شکن نظام کی تنصیب کے اعلان کے بعد گزشتہ ہفتے ہی پیونگ یانگ نے خبردار کیا تھا کہ وہ اس پیش رفت پر ’عملی جواب‘ دے گا۔ یہ کمیونسٹ ریاست ایسے تجربات کو اپنا حق قرار دیتے ہوئے کہتی ہے کہ یہ صرف ملکی دفاع کو مضبوط بنانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔
پینٹاگون کے ترجمان گیری جونز نے اس تازہ پیش رفت پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’ہم شمالی کوریا کے ان تازہ میزائل تجربات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداروں کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔‘‘
دوسری طرف جاپانی وزارت دفاع نے شمالی کوریا کے ان تجربات کو علاقائی سلامتی اور امن کے لیے ایک خطرہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے اپنی اتحادی ممالک کے ساتھ زیادہ بہتر انداز میں رابطہ کاری کرے گا۔
امریکا میں سکیورٹی ماہرین نے گزشتہ ہفتے ہی خبردار کیا تھا کہ جزیرہ نما کوریا میں ہونے والی تازہ پیش رفتوں کے نتیجے میں شمالی کوریا کی جوہری سرگرمیوں میں تیزی پیدا ہوئی ہے۔
جان ہوپکنز یونیورسٹی کے ’یو ایس ۔ کوریا انسٹی ٹیوٹ‘ کے مطابق ایسے امکانات ہیں کہ شمالی کوریا اپنے پانچویں جوہری تجربے کی تیاری میں ہے۔

اویس علی شاہ کے اغوا میں طالبان اور القاعدہ ملوث تھے

0 comments

اویس علی شاہ کے اغوا میں طالبان اور القاعدہ ملوث تھے

سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے بیٹے اویس علی شاہ کو خیبر پختونخواہ کے علاقے ٹانک سے ایک خفیہ آپریشن میں شدت پسندوں سے بازیاب کرالیا گیا ہے۔
پاکستانی فوج کے شعبہء تعلقات عامہ کے سربراہ جنرل عاصم باجوہ نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ اغوا کار اویس علی شاہ کو برقعہ پہنا کر ڈیرہ اسماعیل کی طرف لے جا رہے تھے۔ ٹانک جانے والے راستے میں ایک چیک پوسٹ پر ایک نیلے رنگ کی گاڑی چیکنگ کے لیے چوکی پرنہیں رکی اور ڈرائیور نے گاڑی کو بھگانے کی کوشش کی جس پر سکیورٹی افواج کے اہلکار نے ڈرائیور کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
اس گاڑی میں سے مزید دو اغوکار بھی تھے جنہوں نے فرار ہونے کی کوشش کی تاہم انھیں بھی ہلاک کر دیا گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے بتایا کہ فوج کے پاس اویس شاہ کی ٹانک کے علاقے میں موجودگی کے شواہد تھے۔ عاصم باجوہ نے اویس شاہ کی بازیابی کی تصدیق پیر کو رات گئے ٹوئٹر پر کر دی تھی۔

کیا عمران خان کے بیان کو غلط رنگ دیا گیا؟

0 comments

کیا عمران خان کے بیان کو غلط رنگ دیا گیا؟

عمران خان نے ایک تازہ بیان سے پاکستان کے سیاسی درجہ حرارت کو بڑھانے کی کوشش کی۔ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں انتخابی مہم کے دوران ایک جلسے میں کہا کہ اگر ترکی میں نواز شریف ہوتے تو وہاں مارشل لاء کامیاب ہوجاتا۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے باغ میں خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ جب مشرف اقتدار میں آئے تو کتنے لوگ باہر نکلے۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ جمہوری وزیرِ اعظم کو بچاتے ہیں اور جمہوریت کو سب سے بڑا خطرہ نواز شریف کی بادشاہت سے ہے۔ اتوار کو عمران خان نے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پاکستان میں فوج آئی ، تولوگ خوشیاں منائیں گے۔
ان کے اس بیان نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچادی تھی اور ان کے مخالفین کے علاوہ کئی ان کے سابق دوستوں کو بھی یہ بیان پسند نہیں آیا تھا۔ آج کے جلسے میں عمران خان نے جمہوریت کی تعریف کرتے ہوئےکہا اگر جمہوریت کو کوئی خطرہ ہوا تو وہ اتنا بڑا مظاہرہ کریں گے جو پہلے کبھی نہیں ہوا ہوگا۔ سابق کرکڑ نے جمہوریت کو بہترین نظام بھی قرار دیا۔
نواز شریف اپنے سیاسی حلیفوں کی ایک میٹنگ میں

عمران کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے وفاقی اردو یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکڑ توصیف احمد نے کہا، ''عمران خان برطانیہ میں رہے ہیں اورانہوں نے تعلیم بھی وہیں حاصل کی ہے لیکن انہوں نے نہ جمہوریت کے ارتقاء کو سمجھا اور نہ اس کی اہمیت کو، عمران خان کی یہ غلط فہمی ہے کہ فوج کرپشن کو ختم کرنے کے لئے اقتدار میں آتی ہے، آرمی کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں اقتدار میں آنے کے لئے اور طاقت حاصل کرنے کے بعد وہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عالمی برادری اس وقت پاکستان میں آمریت کو قبول نہیں کرے گی۔ ڈاکٹر توصیف کے مطابق، ’’ ترکی میں فوجی انقلاب کی ناکامی اس بات کی غماز ہے کہ نہ ہی لوگ آمریت چاہتے ہیں اور نہ ہی بین الاقوامی برادری اسے قبول کرے گی۔ امریکہ نے پہلے ہی اپنے اداروں کے ذریعے پاکستان پر دباو ڈالا ہوا ہے اور اگر ایسے میں جمہوریت کو چھیڑا گیا تو ملک کے لئے اور مسائل کھڑے ہوجائیں گے۔ ‘‘
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکڑ امان میمن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کئی ناقدین کا خیال ہے کہ عمران کا طرزِ سیاست انتہائی طفلانہ ہے اور ان کے بیانات میں سیاسی پختگی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’کئی لوگ اُن سے اب مایوس ہیں، ان کے چاہنے والوں کو یہ سن کر بھی حیرت ہوئی ہوگی کہ وہ جنرل حمید گل کے ساتھ عبدالستار ایدھی کو دھمکی دینے کے لئے گئے تھے۔ ایدھی نے خود اپنے انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا۔ ‘‘
نواز حکومت کے خلاف اپوزیشن کا ایک جلسہ

عمران خان پر کی جانے والی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی مرکزی نائب صدر ناز بلوچ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہم ایک جمہوریت پسند جماعت ہیں اور مارشل لاء کی حمایت نہیں کرتے، فوج کے اچھے کاموں کی حمایت کرتے ہیں جیساکہ کراچی آپریشن اور ضربِ عضب جس سے ملک میں امن قائم ہوا۔‘‘ خاتون سیاستدان کے مطابق خان صاحب نے واضح کیا ہے کہ اگر جمہوریت کے خلاف کوئی کام ہوا توہم اس کی بھر پور مزاحمت کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران کے بیان کو سیاق وسباق سے ہٹ کا بیان کیا جارہا ہے۔''پارٹی چیئرمین نے مارشل لا کی حمایت نہیں کی بلکہ وہ بتا رہے تھے کہ طیب اردوآن کی حمایت میں لوگ اس لئے نکلے کہ وہ ایک صاف و شفاف انتخابات کے نتیجے میں اقتدار میں آئے ہیں، طیب اردوآن نے جمہوریت کو مضبوط کیا، تعلیم پر پیسہ خرچ کیا، صحت کے نظام کو بہتر بنایا، معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا اور ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کیا۔‘‘ پی ٹی آئی کی نائب صدر اپنے پارٹی چیرمین کے بیان کی وضاحت میں کہا،’’ نواز شریف نے عوام کی خدمت نہیں کی، اسی لئے خان صاحب نے کہا کہ اگر پاکستان میں فوج آئی تو لوگ اس پر خوش ہوں گے اور یہ صرف دو حکومتوں کا موازنہ ہے ناکہ قطعی مقصد آمریت کی حمایت کرنا۔‘‘

Thursday, July 14, 2016

درختوں کے بارے کچھ دلچسپ حقائق

0 comments
درختوں کے بارے کچھ دلچسپ حقائق
درخت جہاں ایک جانب ہماری زندگیوں کے لیے انتہائی اہم وہیں ان کے بارے کچھ ایسے حقائق بھی وابستہ جن سے بہت کم لوگ واقف ہیں- آئیے آج اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو درختوں کی دنیا سے وابستہ چند ایسے ہی دلچسپ اور حیران کن حقائق بتاتے ہیں۔ جو کہ آپ کے علم میں ضرور اضافہ کریں گے۔ 1۔کولمبیا کی ایک یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے ایک ایسا درخت تیار کیا ہے جو قدرتی درخت کے مقابلے میں ہزار گنا زائد کاربن ڈائی آکسائیڈ اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے- 2۔کیلیفورنیا دنیا کے چند قدیم ترین درختوں کا گھر ہے- یہاں پائے جانے والے چند درخت تو 5 ہزار سال سے بھی زیادہ پرانے ہیں- 3۔ دنیا کے چند قدیم ترین درختوں کا مقام عوام سے خفیہ رکھا جاتا ہے تاکہ وہ انہیں تباہ نہ کرسکیں یا کسی بھی قسم کا نقصان نہ پہنچا سکیں- 4۔لیونارڈو ڈاونچی دنیا کا وہ پہلا شخص تھا جس نے یہ بتایا کہ درخت کی تمام شاخوں کو اگر اکٹھا کردیا جائے تو اس کی موٹائی اتنی ہوگی جتنی کہ اس درخت کے تنے کی ہے- 5۔ 1930 کے دوران نازیوں نے اپنے مشہور نشان swastika کی شکل کے درخت اگائے جو کہ 1992 میں ایک فضائی سروے کے دوران دریافت ہوئے- رہائشیوں نے یہ درخت فوری طور پر کاٹے کیونکہ جرمنی یہ لوگو یا نشان غیر قانونی ہے- 6۔ تقریباً 96 فیصد قدیم ترین ریڈ ووڈ درخت کاٹے جا چکے ہیں اور ان درختوں کا شمار دنیا کے سب سے قدیم ترین اور بلند ترین درختوں میں کیا جاتا ہے- 7۔ ایک ہزار سال قبل وینس کے جزیرے درختوں پر تعمیر کیے گئے تھے لیکن چونکہ درختوں کی جڑیں پانی میں ڈوبی ہوئی تھیں اس لیے وہ زیادہ پھل پھول نہیں سکے- 8۔ انڈونیشیا کے جزیرے Tana Toraja میں اگر کوئی بچہ انتقال کر جاتا ہے تو گاؤں والے اس کی لاش درخت میں سوراخ کر کے اس کے اندر رکھ دیتے ہیں اور درخت کو مزید پروان چڑھنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں- 9۔ سینڈ باکس نامی درخت پر انتہائی زہریلے کانٹے پائے جاتے ہیں اور یہ درخت ان زہریلے کانٹوں سے بھرپور ہوتا ہے- 10۔ امریکہ میں گزشتہ 100 سالوں کے مقابلے میں آج زیادہ درخت پائے جاتے ہیں اور اس کی وجہ 1940 کے آغاز سے ہی جنگلات کی کٹائی کے عمل کو سست کرنا تھا- یہاں تک کہ جنگلات کی افزائش کا عمل تیز ہوگیا- 11۔ 1980 کے بعد سے 11 سال سے زائد عمر کے ہر چینی باشندے پر یہ پابندی عائد ہے کہ وہ سال بھر میں کم سے کم 3 پودے ضرور لگائے گا- 12۔ ہوائی میں یوکٹلس درختوں کی ایک ایسی قسم پائی جاتی ہے جس کی چھال قدرتی طور پر قوسِ قزاح کے رنگ کی ہوتی ہے- 13۔ نامی درخت فلوریڈا میں پایا جاتا ہے اور اس کا شمار دنیا زہریلے ترین درختوں میں ہوتا ہے- اس کا پھل انسان کی جان لے سکتا ہے یہاں تک اس کے قریب کھڑے ہوکر سانس لینا بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے

گوگل کے چیف ایکزیکٹیو کی دلچسپ کہانی

0 comments
گوگل کے چیف ایکزیکٹیو کی دلچسپ کہانی
 اس وقت گوگل کے چیف ایکزیکٹیو "سندرراجن پچائی" ہیں ۔ جن کا تعلق بھارت سے ہے۔ ان کی سالانہ تنخواہ پاکستانی روپے میں 2 ارب روپے سے زائد بنتی ہے۔ جو کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والے ملازم بھی ہیں ۔ آئیے ان کے بارے میں اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو کچھ معلومات فراہم کرتے ہیں۔کہ ایک دو کمروں کے گھر میں چٹائی پر بیٹھ کر پڑھنے والا شخص کس طرح گوگل کا سی ای او بنا ۔ سندر پچائی تامل ناڈو کے شہر مدورائی کا رہنے والا تھا جو کہ 12 جولائی 1972 کا پیدا ہوا۔اس نے غربت میں آنکھ کھولی‘ والد رگوناتھ پچائی الیکٹریکل انجینئر تھا لیکن خاندان کی آمدنی بہت محدود تھی‘ گھر دو کمروں کا فلیٹ تھا‘ اس فلیٹ میں اس کا ٹھکانہ ڈرائنگ روم کا فرش تھا‘ وہ فرش پر چٹائی بچھا کر بیٹھ جاتا تھا‘ وہ پڑھتے پڑھتے تھک جاتا تھا تو وہ سرہانے سے ٹیک لگا کر فرش پر ہی سو جاتا تھا‘ ماں کے ساتھ مارکیٹ سے سودا لانا‘ گلی کے نلکے سے پانی بھرنا‘ تار سے سوکھے کپڑے اتارنا اور گلی میں کرکٹ کھیلنے والے بچوں کو بھگانا بھی اس کی ذمہ داری تھی‘ گھر کی مرغیوں اور ان کے انڈوں کو دشمن کی نظروں سے بچانا بھی اس کی ڈیوٹی تھی اور شہر بھر میں کون سی چیز کس جگہ سے سستی ملتی ہے‘ یہ تلاش بھی اس کا فرض تھا اور باپ اور ماں دونوں کی جھڑکیاں کھانا بھی اس کی ذمہ داری تھی‘ وہ بارہ سال کا تھا جب ان کے گھر ٹیلی فون لگا‘ اس فون نے اس کا کام بڑھا دیا‘ وہ فلیٹس کے اس پورے بلاک کا پیغام بر بن گیا‘ لوگ اس کے گھر فون کر کے بلاک کے دوسرے فلیٹس کےلئے پیغام چھوڑتے تھے اور وہ یہ پیغام پہنچانے کےلئے اٹھ کر دوڑ پڑتا تھا‘ وہ جوانی تک ٹیلی ویژن اور گاڑی کی نعمت سے بھی محروم رہا‘ اس کا والد پوری زندگی کار نہیں خرید سکا لیکن آج وہ نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی آرگنائزیشن گوگل کا سی ای او تھا بلکہ وہ دنیا میں سب سے زیادہ تنخواہ لینے والا ملازم بھی تھا‘ اس کی سالانہ تنخواہ 20 کروڑ ڈالر طے ہو چکی تھی۔ بچپن میں وہ سال سال بھر دوسرے جوتے‘ تیسری شرٹ اور چوتھے پین کےلئے ترستا رہتا تھا‘ وہ بچپن‘ بچپن نہیں تھا‘ وہ محرومی کی ایک سیاہ داستان تھی‘ پچائی کو آج بھی یاد تھا جب سٹینڈ فورڈ یونیورسٹی نے اسے ہوائی ٹکٹ بھجوایا تو اس کا والد ٹکٹ دیکھ کر حیران رہ گیا‘ وہ ٹکٹ اس کے والد کی سالانہ آمدنی سے بھی مہنگا تھا‘ اسے آج تک یہ بھی یاد تھا وہ کورس کی کتابیں مانگ کر پڑھتا تھا اور اپنی اسائنمنٹس ردی کے کاغذوں پر مکمل کرتا تھا‘ وہ بسوں کے ساتھ لٹک کر سفر کرتا تھا اور اسے صرف مذہبی تہواروں پر مٹھائی نصیب ہوتی تھی‘اس نے گھسٹ گھسٹ کر چنائے سے بارہویں جماعت پاس کی‘ وہ اس کے بعد انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی خراگپور چلا گیا‘ اس نے وہاں ٹیوشنز پڑھا پڑھا کر میٹالرجیکل انجینئرنگ کی ڈگری لی‘ اس نے یہ ڈگری ٹاپ پوزیشن میں حاصل کی تھی چنانچہ دنیا میں ٹیکنالوجی کی سب سے بڑی یونیورسٹی سٹینڈفورڈ نے اسے وظیفہ دے دیا‘ وہ امریکا چلا گیا‘ اس نے سٹینڈفورڈ یونیورسٹی سے میٹالرجیکل انجینئرنگ میں ایم ایس کیا‘ وہ انجینئرنگ سے بڑا کام کرنا چاہتا تھا‘ 2004ءمیں جب گوگل میں نوکریاں نکلیں تو اس نے اپلائی کر دیا‘ گوگل نے اسے پراجیکٹ مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت دے دی‘ یہ ملازمت اس کےلئے نعمت ثابت ہوئی‘ سندر راجن پچائی اس یونٹ کا حصہ تھا جس نے ”گوگل کروم“ کا منصوبہ شروع کیا‘ یہ منصوبہ 2008ءمیں مکمل ہوا اور اس کے ساتھ ہی پچائی گوگل اور امریکا دونوں میں مشہور ہو گیا‘ اس کا دماغ ذرخیز تھا چنانچہ وہ گوگل کےلئے نئے نئے منصوبے بناتا رہا‘ گوگل کا ویب براؤزر ہو‘ اینڈروئڈ ہو یا گوگل ٹول بار‘ ڈیسک ٹاپ سرچ اور گوگل گیئرز یہ تمام پراجیکٹ سندر راجن پچائی نے مکمل کئے‘ ان منصوبوں سے گوگل کی آمدنی میں اضافہ ہوا‘ گوگل اس وقت دنیا کی امیر ترین کمپنی ہے‘ اس کی مالیت 554 ارب ڈالر ہو چکی ہے جبکہ اس کی سالانہ آمدنی 74 بلین ڈالر ہے‘ پاکستان کے کل غیرملکی قرضے 70 بلین ڈالر ہیں‘ گویا گوگل ایک سال میں دنیا کی واحد اسلامی جوہری طاقت کے کل قرضوں سے زیادہ رقم کماتا ہے‘ یہ کمپنی سٹینڈفورڈ یونیورسٹی کے دو طالب علموں لیری پیج اور سرجے برن نے 1996ءمیں شروع کی‘ یہ دونوں اس وقت پی ایچ ڈی کے طالب علم تھے‘ گوگل کا مقصد انٹرنیٹ پر موجود مواد کو درجوں میں تقسیم کرنا اور اسے لوگوں کےلئے آسان بنانا تھا‘ گوگل 2000ءتک دنیا کا معتبر ترین سرچ انجن بن گیا‘ یہ کمپنی دنیا بھر سے نیا ٹیلنٹ تلاش کرتی رہتی ہے‘ سندر راجن پچائی بھی اس کی دریافت تھا‘ یہ نوجوان 1972ءمیں تامل ناڈو میں پیدا ہوا‘ یہ 1993ءمیں سٹینڈفورڈ یونیورسٹی پہنچا‘ 1995-96ءمیں ایم ایس اور 2002ءمیں ایم بی اے کیا‘ یہ زندگی میں بہت کچھ کرنا چاہتا تھا اور گوگل نے اسے یہ بہت کچھ کرنے کا موقع دے دیا‘ یہ اپنے دلچسپ آئیڈیاز کے ذریعے بہت جلد کمپنی میں اپنی جگہ بنا گیا‘ یہ تیزی سے ترقی کرتے ہوئے 10 اگست 2015ءکو گوگل کا سی ای او اور لیری پیج کا نائب بن گیا‘ کمپنی نے اسے شیئر بھی دے دیئے‘ یہ اس وقت 60 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز کے شیئرز کا مالک بھی ہے۔ گوگل نے پچائی کو فروری 2016ءکے دوسرے ہفتے 19 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تنخواہ کا چیک دیا‘ پچائی یہ چیک وصول کرتے ہی دنیا کا سب سے زیادہ معاوضہ لینے والا ”سی ای او“ بن گیا‘ ہم اگر انہیں پاکستانی روپوں میں تبدیل کریں تو یہ دوسو کروڑ روپے بنیں گے گویا تامل ناڈو کا 43 برس کا ایک غریب جوان سالانہ دو سو کروڑ روپے تنخواہ لے رہا ہے اور غریب بھی ایسا جس نے 18 سال کی عمر تک فرش پر سو کر اور فرش پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کی اور جو 12 سال کی عمر تک ٹیلی فون اور امریکا آنے تک ٹیلی ویژن اور گاڑی سے محروم تھا اور جس کا پورا بچپن دوسرے جوتے‘ تیسری شرٹ اور چوتھے پین کو ترستے گزرا اور جو آج بھی ہندی لہجے میں انگریزی بولتا ہے اور اپنے گندمی رنگ کی وجہ سے دور سے پہچانا جاتا ہے

Wednesday, July 6, 2016

دنیا کا انوکھا ترین بادشاہ

0 comments
دنیا کا انوکھا ترین بادشاہ دنیا کا انوکھا ترین بادشاہ جو دن میں گاڑیاں ٹھیک کرنے کا کام اور شام کو اپنے ملک کے معاملات چلاتا ہ

برلن ( 04 جولائی 2016)دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کو تاریخ ان کے جاہ و جلال کے حوالے سے جانتی ہے لیکن ایک افریقی بادشاہ نے حکمرانی کے ساتھ مزدوری کر کے دنیا کی توجہ حاصل کر لی ہے۔ اس67 سالہ منفرد حکمران کا شاہی نام ”تووڈی نیگوری فیا سیفاک کوسی بانسا ہے،“ اور اس کی سلطنت کانام ”گبی“ ہے، جو کہ مشرقی گھانا میں ٹوگو کی سرحد کے ساتھ واقع ہے۔ کنگ سیفاس کی سلطنت میں تین لاکھ سے زائد افراد بستے ہیں۔ یہ بادشاہ سلامت محنت مزدوری کے لئے جرمنی میں مقیم ہیں اور یہاں مکینک کا کام کرتے ہیں۔ یہ کوئی لطیفہ نہیں بلکہ واقعی حقیقت ہے کہ کنگ سیفاس نے لڈ وک شیفن کے علاقے میں اپنی ورکشاپ بنارکھی ہے، جہاں وہ دن بھر تیل اور گریس میں لتھڑے رہتے ہیں۔ یہ بادشاہ سلامت سال میں 8مرتبہ اپنی سلطنت کا دورہ کرتے ہیں جبکہ باقی دنوں میں سکائپ کے ذریعے حکمرانی کے فرائض سرانجام دی