ٹمبکٹو
ٹمبکٹو کا نام سنتے ہی ذہن میں ایک پراسرار، رومانوی اور دیومالائی مقام کا تصور آ جاتا ہے۔بہت سوں کا تو یہ خیال تھا کہ شاید یہ کسی جغرافیائی مقام نہیں بلکہ کوئی داستانوی نام ہے۔ آج اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو اس کے بارے کچھ دلچسپ و عجیب بتاتے ہیں۔

یہ افریقی ملک مالی کا اینٹ پتھر سے بنا ہوا شہر ہے جہاں ہماری آپ ہی کی طرح کے انسان رہتے ہیں۔اس علاقے کے افسانوں کا چرچہ 1390ء سے شروع ہوا جب یہاں کے سردار مانسا موسا نے حج کے لیے مکہ کا سفر شروع کیا۔ راستہ میں مصر پہنچنے پر انہوں نے اتنا سونا بانٹا کہ مصر کی کرنسی اپنی قدر کھو بیٹھی۔ اس سے لوگوں میں ٹمبکٹو کے بارے میں افسانے مشہور ہونے شروع ہو گۓ کہ افریقہ کے وسط میں ٹمبکٹو نام کا ایک ایسا شہر بستا ہے جہاں سڑکیں اور مکانوں کی چھتیں تک سونے کی بنی ہوئی ہیں۔
آکسفرڈ ڈکشنری میں ٹمبکٹو کا مطلب لکھا ہوا ہے ایسی جگہ جو بے حد دور افتادہ، دشوار گزار اور دنیا کے دوسرے کونے پر آباد ہو۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے، ’ارے بھائی، دو ماہ سے تمھارا کوئی اتا پتا نہیں، کہیں ٹمبکٹو تو نہیں چلے گئے تھے؟
انگریزی زبان میں یہ لفظ انیسویں صدی میں ان معنی میں استعمال ہونا شروع ہوا۔ اس کے بعد سے الفریڈ ٹینی سن، ڈی ایچ لارنس اور اگاتھا کرسٹی جیسے مشاہیر نے اسے اپنی تحریروں میں استعمال کیا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ٹمبکٹو کا یہ مطلب کیسے پیدا ہو گیا کیوں کہ دنیا میں اس سے بھی زیادہ دور افتادہ اور دشوار گزار جگہیں موجود ہیں؟ ٹمبکٹو شہر کو 12ویں صدی میں طوارق قوم نے آباد کیا تھا۔ یہ شہر سونے اور نمک کے تجارتی قافلوں کی گزرگاہوں کے سنگم پر واقع تھا، اس لیے کچھ ہی عرصے کے بعد یہ پھلنا پھولنا شروع ہو گیا اور تمام علاقے کا سب سے مالدار اور اہم شہر بن گیا۔اس شہر کی ثروت مندی کے قصے جب یورپ پہنچے تو وہاں کے مہم جوؤں اس تک پہنچنے کے لیے کمربستہ ہو گئے۔
تاہم ٹمبکٹو چوں کہ صحرائے اعظم صحارا کے اندر واقع تھا اس لیے بہت سی مہماتی ٹیمیں یہاں تک پہنچنے میں ناکام رہیں اور صحرا میں بھٹک کر رہ گئیں۔ صحرائے اعظم پر دلچسپ معلومات پیج پر ایک پوسٹ موجود ہے۔ یہ صحرا دنیا کا سب سے بڑا صحرا ہے۔
آکسفرڈ یونیورسٹی کے ایڈیٹر رچرڈ شپیرو کہتے ہیں کہ سب سے پہلے یورپی 1830 میں ٹمبکٹو پہنچے۔ اس سے پہلے یورپ میں صرف اس شہر کا تذکرہ صرف ان مہم جو ٹیموں کے حوالے سے ہوتا تھا جو وہاں پہنچنے میں ناکام رہیں۔1820ء میں لوگ کہتے تھے کہ یہ طرابلس سے 60 دنوں کی مسافت پر واقع ہے جس میں سے چھ دن ایسے بھی آتے ہیں جب پانی دستیاب نہیں ہوتا۔شپیرو کہتے ہیں کہ انگریزوں کا خیال تھا کہ ٹمبکٹو سے انھیں ایسی مال و دولت ملے گی جیسے سپین کو جنوبی امریکہ میں حاصل ہوئی تھی۔ تاہم وہ صدیوں کی کوششوں کے باوجود وہاں پہنچنے میں ناکام رہے اس لیے اس شہر کا مطلب ہی کسی ناقابلِ حصول جگہ کے مترادف ہو گیا۔
ٹمبکٹو وسطی افریقہ میں اسلامی تہذیب کا مرکز رہا ہے۔ یہاں پر جامعہ سنکوری کے نام سے ایک دینی یونیورسٹی قائم تھی جہاں دور دراز سے طلبہ حصولِ علم کے لیے آتے تھے۔
یہاں کی 60 کتب خانوں میں سات لاکھ سے زائد صدیوں پرانی کتب موجود ہیں۔ اس کے علاوہ درجنوں تاریخی عمارات ہیں جن کا طرزِ تعمیر اپنی مثال آپ ہے۔ یونیسکو نے ٹمبکٹو کو عالمی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔