dailymotion-domain-verification=dm67ezljlaa1ez90i June 2016 | Daily news

Wednesday, June 29, 2016

سچی توبہ کی برکات

0 comments
سچی توبہ کی برکات
 بخاری و مسلم شریف کی حدیث میں ہے جوکہ حضرتِ سَیِّدُنا ابوسعید خُدرِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:’’تم سے پہلے زمانہ میں ایک شخص نے ننانو ے (99)قتل کئے پھر اس نے روئے زمین کے سب سے بڑے عالِم کے بارے میں پوچھا تو اسے ایک راہب (عابد) کے متعلق بتایا گیا۔ یہ اس کے پاس پہنچا اور کہا: میں نے ننانوے قتل کئے ہیں کیا میری توبہ قُبول ہوگی؟اس نے کہا:’’نہیں۔‘ ‘قاتل نے اسے بھی قتل کرکے سو(100)کی تعداد پوری کر دی۔پھر روئے زمین کے سب سے بڑے عالِم کے متعلق پوچھا ، تو اسے ایک عالِم کا پتہ بتایا گیا، یہ اس کے پاس پہنچا اور کہا کہ میں نے سو(100) قتل کئے ہیں کیا میری توبہ قُبول ہو سکتی ہے؟عالِم نے کہا:ہاں ! تمہارے اور توبہ کے درمیان کون رُکاوٹ بن سکتا ہے !جاؤ،فلاں ،فلاں جگہ چلے جاؤ وہاں کچھ لوگ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کر رہے ہیں ،تم اُن کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کرواور اپنے علاقے کی طرف نہ جاناکیونکہ وہ بُری جگہ ہے ۔ چنانچہ، وہ قاتل،عالم کے بتائے ہوئے علاقے کی جانب روانہ ہو گیا۔ جب وہ آدھے راستہ پر پہنچا تو اسے موت نے آلیا، اور اس کے متعلق رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں اِختِلاف ہو گیا،رحمت کے فرشتوں نے کہا،یہ شخص توبہ کرتاہوا،دل سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف متوجہ ہوتا ہوا آیا تھا۔ (اس لئے اس کو جنت میں لے جائیں گے) جبکہ عذاب کے فرشتوں نے کہا : اس نے کوئی نیک عمل نہیں کیا،(اس لئے یہ جہنمی ہے) پھر ان کے پاس (اللہ کی طرف سے ہی ) ایک فرشتہ آدمی کی صورت میں آیا، اُنہوں نے اس کواپنے درمیان فیصلہ کرنے والا بنالیا،تو اس نے کہا :’’ دونو ں زمینوں کی پیمائش کرو،یہ شخص (یعنی قاتل) جس زمین کے زیادہ قریب ہو اسی کے مطابق اس کا فیصلہ ہوگا ،جب فرشتوں نے پیمائش کی تووہ اس زمین کے زیادہ قریب تھا جہاں اس نے جانے کا ارادہ کیا تھا۔ چنانچہ، رَحمت کے فرشتوں نے اُسے لے لیا ۔ مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ وہ شخص ایک بالِشت نیک لوگوں کی بستی کے قریب تھا۔ تو اُسے انہیں میں کردیا گیا ۔ اور صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اُس زمین کی طرف وحی فرمائی کہ دور ہو جا! اور اِس زمین سے فرمایا کہ قریب ہو جا! پھر اس فرشتے نے کہا : دونوں زمینوں کی پیمائش کرو !( جب پیمائش کی گئی) تو وہ نیک لوگوں کی بستی کے ایک بالِشت قریب پایا گیا تو اُسے بخش دیا گیا۔ ایک روایت میں ہے کہ اُس نے اپنا سینہ نیک لوگوں کی بستی کی طرف کردیا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کی بخشش ہوگی۔ پیارے دوستوں۔ انسان سے چاہے کتنے ہی گناہ کیوں نہ ہوجائیں لیکن جب وہ نادم ہوکر سچی توبہ کے لئے بارگاہِ الٰہی عزوجل میں حاضر ہوجائے تو اس کے گناہ معاف کردئيے جاتے ہیں چنانچہ حضرتِ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''اگر تم گناہ کرتے رہو یہاں تک کہ وہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر تم توبہ کرو تب بھی اللہ عزوجل تمہاری توبہ قبول فرمالے گا۔'' ( سنن ابن ماجہ) حدیث قدسی ہے اللہ تعالی فرماتا ہے،'' اے ابن آدم! میری طرف اٹھ،میری رحمت تیری طرف چل کرآئے گی اور تُومیری طرف قدم بڑھا،میری رحمت تیری طرف دوڑتی ہو ئی آئے گی۔'' (مسند احمد) حضرتِ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رحمت عاالم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو فرماتے ہو ئے سنا کہ'' بنی اسرا ئیل کا ''کِفل'' نامی شخص گناہ کرنے سے نہ چُوکتا تھا۔ ایک مرتبہ اسکے پاس ایک مجبو ر عورت آئی تو اس نے اسے نوے دینار اس شر ط پر دیئے کہ وہ اس سے بدکاری کرے ۔جب وہ اس عورت پر حاوی ہونے لگا تو وہ عورت کانپنے لگی اور رونا شروع کردیا۔اس نے عورت سے پوچھا'' کیوں رورہی ہو؟ کیا میں تمہارے ساتھ زبردستی کررہاہوں؟''تو اس عورت نے کہا'' نہیں! میں نے یہ کام کبھی نہ کیا تھامگر آج صرف ضرو رت نے مجھے یہ کام کرنے پر مجبور کردیا۔'' اس نے کہاکہ''تم آج وہ کام کررہی ہو جو تم نے پہلے کبھی نہیں کیا،جاؤ،میں نے جو کچھ تمہیں دیا ہے وہ تمہارا ہے۔ خدا کی قسم! آج کے بعد میں اللہ عزوجل کی کبھی نا فرمانی نہیں کرو نگا۔'' پھر اسی رات اس کا انتقال ہوگیا، صبح اس کے دروازے پر لکھا ہواتھا کہ اللہ عزوجل نے کِفل کی مغفر ت فرمادی۔'' (سنن الترمذی) مَحبوبِ رَبِّ اکبرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ'' جہاں بھی رہواللہ عزوجل سے ڈرتے رہو اورگناہ کے بعد نیکی کرلیا کرو کہ وہ نیکی اس گناہ کومٹادے گی اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آؤ۔'' (سنن ترمذی) اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں سچی توبہ کی توفیق دے ،اپنا خوف اور اپنے حبیب صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا عشق عطا فرمائے اور اسے ہمارے لئے ذریعہ نجات بنائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم

زمین سے وابستہ کچھ دلچسپ باتیں

0 comments
زمین سے وابستہ کچھ دلچسپ باتیں ہماری
زمین گلیکسی کا سب سے منفرد سیارہ ہے جہاں ہم بستے ہیں اس زمین سے وابستہ کچھ دلچسپ حقائق بھی ہیں۔ ہمارے سائنسدان کئی صدیوں سے زمین پر تحقیق کرتے چلے آرہے ہیں جس کے نتیجے میں آئے روز کوئی نہ کوئی نیا انکشاف سامنے آتا ہے- آج میں اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو کچھ ایسے ہی زمین سے متعلق حقائق آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں امید ہے کہ یہ معلومات آپ کے علم میں اضافے کا باعث بنے گی۔ 1۔زمین پر پائے جانے والے 90 فیصد آتش فشاں سمندر کے نیچے پائے جاتے ہیں- 2۔ زمین پر موجود سب سے خشک ترین مقام انٹارٹیکا کی ڈرائی ویلی ہے جہاں پر گزشتہ 2 ملین سالوں سے بارش نہیں ہوئی- 3۔ سائنس دانوں کے مطابق ننانوےفیصد سونا زمین کے مرکز میں پایا جاتا ہے- جہاں ہمارے رسائی فی الحال ناممکن ہے۔ ہاں حدیث کے مطابق قیامت سے پہلے یہ زمین اپنے خزانے اگل دے گی۔ 4۔ زمین نظامِ شمسی کا وہ واحد سیارہ ہے جو tectonics پلیٹس کے ساتھ موجود ہے- سائنس دانوں کے مطابق اگر یہ پلیٹس نہ ہوتیں تو زمین انتہائی گرم ہوتی۔ جیسے کہ وینس سیارہ جس میں یہ پلیٹس موجود نہیں- 5۔ زمین پر پایا جانے والا ستانوے فیصد پانی نمکین ہے- جو کہ پینے کے قابل نہیں۔ 6۔ باقی بچ جانے والے 3 فیصد پانی کے حصے میں سے دو تہائی حصہ برفانی چوٹیوں سے ڈھکا ہوا ہے- 7۔ اس کے بعد بچ جانے والا زیادہ تر پانی زمین سے اس حد تک نیچے ہے کہ وہاں تک رسائی ناممکن ہے- تو معلوم ہوا کہ زمین پر پایا جانا والا پینے کے قابل پانی نہایت ہی کم ہے۔ پھر بھی اللہ تعالی ہمیں ہماری ضرورت کے مطابق پینے کا پانی عطاء کررہا ہے۔ اس نعمت پر ہمیں اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیئے۔ 8۔ اگر زمین کے مدار سے باہر نکل کر دیکھا جائے تو سب سے زیادہ چمکنے والا سیارہ زمین ہی ہے کیونکہ سورج کی روشنی زمین پر پائے جانے والے پانی پر جب پڑتی ہے تو یہ سیارہ نہایت ہی روشن نظر آتا ہے۔ 9۔ زمین کی دور سے کھینچی جانے والی تصویر کا فاصلہ 3.7 بلین میل تھا- اور اس تصویر کو The Pale Blue Dot کہا جاتا ہے- 10۔ اوزون کا سوراخ سکڑ رہا ہے اور 2012 میں گزشتہ دہائی کے مقابلے میں یہ سوراخ مزید چھوٹا ہوگیا تھا- 11- دنیا کا نوے فیصد کچرا سمندر میں پایا جاتا ہے اور وہ پلاسٹک پر مشتمل ہوتا ہے- 12- زمین پر موجود 95 فیصد سمندری علاقہ تاحال غیر دریافت شدہ ہے- 13- ہماری گلیکسی میں یہ واحد سیارہ ہے جہاں 21 فیصد آکسیجن موجود ہے۔ 14- اسی طرح زمین ہی واحد سیارہ ہے جہاں پانی موجود ہے۔ 15- اسی طرح گلیکسی میں یہ واحد سیارہ ہے جہاں زندگی کا وجود ہے۔ 16- ہماری زمین کا صرف ایک ہی چاند ہے۔ جبکہ سائنس دانوں کے مطابق ہماری گلیکسی میں کم از کم 27 چاند اور بھی ہیں۔ 17۔ تکنیکی اعتبار سے ایک دن میں 24 گھنٹے نہیں ہوتے۔ کیونکہ سورج زمین کے گرد اپنا چکر پورا کرنے میں 23 گھنٹے 56 منٹ اور 4 سیکنڈ لگاتا ہے۔ (یہاں میں نے سورج کی گردش کا ذکر کیا ہے۔ کیونکہ اسلامی نقطہ نظر سے سورج کی حرکت کی وجہ سے ہی دن رات گرمی سردی کا ظہور ہوتا ہے۔ نہ کہ زمین کی حرکت کی وجہ سے۔ زمین کی حرکت کا نظریہ سب سے پہلے گلیلیو گلیلی نے 1615ء میں پیش کیا۔جس پر اس وقت کے بہت سے لوگوں نے اعتراض بھی کیاتھا۔ اور آج تک اعتراضات موجود ہیں۔ کیونکہ یہ نظریہ بائیبل کے سراسر خلاف تھا۔ اور اس نظریے کے گھڑنے کی وجہ سے چرچ نے اس سائنس دان کو بہت سخت سزائیں بھی تھیں۔ لیکن بعد میں اسی نظریے کو سائنس دانوں نے قبول کرلیا ۔جو آج تک قائم ہے۔یعنی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ زمین کی حرکت کا نظریہ 1615ء سے پہلے کسی نے بھی باقاعدہ طور پر پیش نہیں کیاتھا۔ صحابہ میں سے حضرت سیدنا حذیفہ بن یمان اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہم کے سامنے بھی جب یہ مسلہ پیش ہوا کہ حضرت کعب کہتے ہیں کہ آسمان گھوم رہا ہے تو انہوں نے کہا کعب نے جھوٹ بولا اور قرآن پاک کی وہ آیت پڑھی جس میں ذکر ہے کہ آسمان اور زمین کو اللہ روکے ہوئے ہے کہ حرکت نہ کریں۔یعنی مسلہ آسمان کی حرکت کے بارے پوچھا جارہا تھا۔ اور آپ دونوں حضرات نے فرمایا کہ نہ آسمان حرکت کرتا ہے اور نہ ہی زمین۔ بہرحال اس پر میں پوسٹ کرچکا ہوں۔ اس میں قرآن پاک اور تفاسیر کے حوالے سے بتا چکا ہوں کہ زمین حرکت نہیں کرتی۔) 18۔ سائنس دانوں کے نظریے کے مطابق زمین دوطرح سے گھوم رہی ہے ۔اپنےگرد اور سورج کےگرد ۔اپنے گرد465.1 میڑ فی سکینڈ (یا 1674.4 کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار سے گھوم رہی ہے ۔ اور سورج کے گرد 29.8 کلو میڑ فی سکینڈ (یا 107300کلومیٹر فی گھنٹہ) کی انتہائی تیز سپیڈ سے گھوم رہی ہے۔ یہ بات بھی عقل کے ترازو پر پوری اترتی نظر نہیں آتی۔ بہت سے ناقدین اس نظریہ پر بھی اعترضات کرتے آئے ہیں۔ جیسے بعض ناقدین کہتے ہیں کہ اگر زمین واقعی تقریبا 30 کلومیٹر فی سکینڈ کی انتہائی تیزرفتاری سے گھوم رہی ہے تو پرندےہوا میں اڑنے کے بعد اپنی جگہ پر کیسے واپس آسکتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ ذہن میں رہے کہ آج کے دور میں بھی زمین کی حرکت کے متعلق سائنس دانوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ جو آپ انٹرنیٹ پر سرچ کرسکتے ہیں۔ مجھے تو کشش ثقل اور بیگ بینگ تھیوری میں بھی کوئی وزن دیکھائی نہیں دیتا۔ کیونکہ ان کو بھی کسی سائنٹیفک طریقے سے ثابت نہیں کیا جا سکا۔ اب سنا ہے کہ ایک پاکستانی نژاد خاتون نے کشش ثقل (گرویٹی) کی لہروں کو ڈھونڈ لیا ہے۔ جس کو میڈیا نے بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔ یہ تو کچھ عرصہ بعد مزید سائنس دانوں کی تحقیق سے ہی بات واضح ہوگی۔ کیونکہ انٹرنیٹ پر کئی مضامین موجود ہیں جن میں بعض ناقدین گرویٹی کی موجودگی کا انکار کرتے نظر آتے ہیں۔

طلاق کی دلچسپ رسومات اور عجیب و غریب قوانین

0 comments
طلاق کی دلچسپ رسومات
اور عجیب و غریب قوانین آپ دوستوں نے دلچسپ معلومات پیج پر شادی کے موقع پر ادا کی جانے والی عجیب و غریب رسومات تو پڑھی ہوں گی۔ لیکن دنیا میں چند ایک مقامات ایسے بھی ہیں، جہاں شادی کی ناکامی یعنی طلاق کے موقع پر بھی مذہبی رسومات ادا کرنے کی روایت موجود ہے اور یہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں تو طلاق سے متعلق عجیب وغریب قوانین بھی موجود ہیں۔ آج اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں وائس آف امریکہ کے آرٹیکل سے ماخوذ ان مذہبی رسومات اور عجیب و غریب قوانین کے بارے میں بتاتے ہیں۔ مندر میں طلاق کا ٹوائلٹ: جاپان میں ایک ایسا مندر واقع ہے، جو اپنے زائرین کو ناکام شادی ٹوائلٹ میں بہانے کی پیشکش کرتا ہے۔ وسطی جاپان کے صوبے گونما میں 'منٹو کوجی ٹیمپل ' ازدواجی تعلقات سے چھٹکارا حاصل کرنے والے جوڑوں کو ایک کاغذ پر تمام گلے شکوے لکھنے اور طلاق کی وجوہات بیان کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، جسے بعد میں فلیش میں بہا دیا جاتا ہے. جرمنی کے ایک چرچ میں طلاق پر ماتم کی رسم: یہ 2000ء کی بات ہے جب جرمنی میں ایک پادری مارگوٹ کائسمین نے ملک کے تمام گرجا گھروں میں طلاق کے موقع پر ماتم کی رسم ادا کرنے کی تجویز پیش کی۔ جس کے بعد ان کی تجویز پر گرجا گھروں میں طلاق کے موقع پر بڑے پیمانے پر ماتم کی رسم ادا کی گئی ان تقریبات میں دونوں فریقین دوستوں اور رشتہ داروں کو اپنی شادی کی ناکامی کی وجوہات سے آگاہ کرتے ہیں۔ طلاق کا سرٹیفیکٹ منحوس: جینگ افراد چین سے تعلق رکھنے والی ایک اقلیتی نسل کے افراد ہیں، جن کے ہاں طلاق کا ایک مخصوص طریقہ ہے، جس کے مطابق طلاق کے سرٹیفیکٹ پر دستخط گھر کے اندر نہیں کیا جاسکتا ہے اور دستخط کرنے کے فوراً بعد قلم اور دوات کو برا شگن سمجھ کر دور پھینک دیا جاتا ہے۔ محبت نامے سات برس بعد ارسال : 2011ء میں چین میں ایک سرکاری ڈاک خانے کی طرف سے ایک ایسی مہم چلائی گئی، جس میں شادی شدہ جوڑوں کو ایک محبت نامہ لکھنے کی ترغیب دی گئی، جسے شادی کے سات برس بعد شریک حیات کو ارسال کیا جائے گا، اس اقدام کا مقصد دراصل ملک میں طلاق کی شرح کو کم کرنا تھا تاکہ سات برس بعد محبت نامہ پانے والے میاں بیوی ایک بار پھر سے اس محبت کو یاد کر سکیں جس نے انھیں ملایا تھا۔ طلاق کے عجیب وغریب قوانین : دنیا کے کئی ممالک میں طلاق کے ایسے عجیب و غریب قوانین موجود ہیں جہاں طلاق حاصل کرنا ایک ناقابل یقین تجربہ ثابت ہوتا ہے۔ دنیا میں فلپائن واحد ملک ہے، جس کا قانون آج بھی اپنے شہریوں کو طلاق کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ تاہم اے بی سی نیوز کی ایک رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ 1985ء سے 2000ء کے درمیان جاپان میں طلاق کی شرح سب سے زیادہ تھی۔ اس کی وجوہات سے پتا چلتا ہے کہ 2006ء میں جاپانی جوڑوں میں شادی کے بیس برس بعد طلاق لینے کا رواج زیادہ عام ہو گیا تھا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ ریٹائرڈ ہسبنڈ سینڈروم کی وجہ سے تھا یعنی ایسے شوہروں کی وجہ سے جو روزگار کے لیے ملک سے باہر رہتے ہیں اور اپنی بیوی کو زیادہ نہیں جانتے ہیں لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں اپنی بیوی میں ہر طرح کے عیب نظر آتے ہیں۔ طلاق کے لیے تیسرے فریق پر ہرجانہ: ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سات ریاستوں جن میں ریاست نیو میکسیکو اور مسیسپی شامل ہیں، شادی کی ناکامی کی وجہ ایک تیسرے فریق کو ٹھہرایا جا سکتا ہے اور شادی خراب کرنے والے تیسرے شخص پر شادی کے نقصان کے لیے بھاری رقم کا ہرجانہ دائر کیا جا سکتا ہے، تاہم اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے ثبوت کی ضرورت پڑتی ہے۔ ساس سے برا سلوک طلاق کی وجہ نہیں ہو سکتا: امریکی ریاست کنساس میں شادی کو طویل مدت تک قائم رکھنے کے لیے طلاق کا ایک ایسا قانون موجود ہے۔ جس کے تحت دونوں فریق کو اس بات کی اجازت نہیں ہےکہ وہ ساس کے ساتھ بدسلوکی یا برے تعلقات رکھنے پر ایک دوسرے کو طلاق دے سکیں۔ ہنسی مذاق میں شادی کرنے والوں کو طلاق کی اجازت : امریکی ریاست ڈیلاوئیر میں طلاق کے لیے ایک ایسا قانون موجود ہے جس کے تحت اگر ایک شخص ہنسی مذاق یا شرط نبھانے کے لیے شادی کر لیتا ہے تو، اسے بعد میں طلاق کا مقدمہ دائر کرنے کی اجازت ہے جبکہ اس قانون سے ہنسی مذاق میں شادی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ شادی پر ایک دوسری شادی سے طلاق: آسٹریلیا میں قبائلی خواتین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ یا تو اپنے شوہر کو طلاق دینے کے لیے آمادہ کریں یا پھر شادی سے چھٹکارا پانے کے لیے ایک دوسری شادی کر لیں اس طرح ان کی پہلی شادی خود بخود منسوخ ہو جاتی ہے۔ ایک ہی شخص سے چوتھی بار شادی کی اجازت نہیں : امریکی ریاست کینٹکی میں اس بات کی اجازت ہے کہ آپ ایک ہی شخص سے طلاق کے بعد تین بار شادی کر سکتے ہیں لیکن چوتھی بار اسی شخص سے شادی کرنے کی اجازت آپ کو ریاست کا قانون نہیں دیتا ہے۔ زہر دے کر مارنے پر طلاق منظور : امریکی ریاست ٹینسی میں اگر آپ کا شریک حیات آپ کو جان سے مارنے کے لیے کوئی حربہ مثلاً زہر پلانےکی کوشش کرتا ہے تو اس بنیاد پر آپ کی طلاق منظور ہو سکتی ہے۔ شوہر کی دماغی حالت کی خرابی پر طلاق: نیو یارک میں اگر آپ یہ ثابت کر سکیں کہ آپ کے شریک حیات کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے تو آپ کو طلاق مل سکتی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ شادی کے دوران شریک حیات کی دماغی حالت کم از کم پانچ سالوں سے خراب رہی ہو۔ شریک حیات کے عیب کے بغیر طلاق ناممکن: برطانیہ میں طلاق حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ شریک حیات کی حد درجہ برائیوں کا ذکر کیا جائے صرف ذاتی ناپسندیدگی کی بنیاد پر طلاق منظور نہیں کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں جوڑے طلاق کے لیے شریک حیات میں عجیب وغریب عیب تلاش کرتے ہیں، جیسا کہ ایک شوہر نے طلاق کے مقدمے میں کہا کہ وہ اپنی بیوی کو اس لیے طلاق دینا چاہتا ہے کیونکہ وہ ہر روز مچھلی پکاتی ہے۔

دنیا بھر سے کچھ عجیب و غریب قوانین

0 comments
دنیا بھر سے کچھ عجیب و غریب قوانین ریاست کی طرف سے لاگو ہونے والے قوانین کا احترام کرنا ہرملک کے شہریوں کا فرض ہوتا ہے۔ لیکن دنیا کے بیشتر ملکوں میں ایسے حیرت انگیز قوانین بھی موجود ہیں جن کا علم اسی وقت ہوتا ہے جب آپ اس قانون کو انجانے میں توڑ چکے ہوتے ہیں۔دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں - امریکہ، یورپ اور برطانیہ سمیت دیگر ممالک - میں ایسے عجیب و غریب قوانین آج بھی موجود ہیں جن کی پابندی کرنے کے لیے پہلے سے ان کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔ آج اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو ان عجیب و غریب اور دلچسپ قوانین میں سے کچھ کی معلومات دیتے ہیں۔ 1۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ساموا کی ریاست میں بیوی کی سالگرہ کا دن بھولنا غیر قانونی ہے۔ 2۔ اسی طرح میلان میں لوگوں کو قانونی طور پر چہرے پر مسکراہٹ رکھنے کا پابند بنایا گیا ہے۔ یہاں صرف تدفین یا حادثے کے واقعات میں ہی مسکرانا منع ہے۔ 3۔ برطانوی قانون کے تحت 'ہاوس آف پارلیمنٹ' کے اندر مرنا جرم ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لندن میں ہاوس آف پارلیمنٹ کا دورہ کرتے ہوئے اگر یہاں کسی کی موت واقع ہو جائے تو وہ شاہی روایت کے اعتبار سے اسٹیٹ تدفین کا حقدار تصور کیا جائے گا۔ اسی طرح ہاوس آف پارلیمنٹ کے اندر فوجی وردی کے ساتھ داخل ہونا غیر قانونی ہے۔ 4۔ خط پر ملکہ برطانیہ کی تصویر والا ٹکٹ الٹا چپکانا غیر قانونی ہے جس پر جیل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 5۔ یہاں کرسمس کے دن 25 دسمبر کو گھر پر قیمے کی پیٹیس تیار کرنا یا کھانا غیر قانونی ہے۔ 6۔ ہر شہری کے لیے ضروری ہے کہ وہ ٹی وی خریدنے کے ساتھ لائسنس خریدنا نہ بھولے کیونکہ برطانیہ میں لائسنس کے بغیر ٹی وی رکھنا غیر قانونی ہے۔ 7۔ برطانیہ میں پارک یا باغیچے کی گھاس کو نقصان پہنچانا غیر قانونی ہے۔ 8۔ قطار میں کھڑے لوگوں کے لیے قطار توڑ کر آگے بڑھنا غیر قانونی ہے۔ 9۔ یہاں گھر کے اندر سے جواب نہ ملنے کے باوجود دروازے پر بار بار دستک دینا آپ کو مہنگا پڑ سکتا ہے جس کے لیے جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے ۔ 10۔ برطانیہ کے کسی بھی شہر میں کارپیٹ یا ڈور میٹ کو جھاڑنا غیر قانونی ہے۔ صرف ڈور میٹ کو صبح آٹھ بجے سے پہلے جھاڑا جا سکتا ہے۔ 11۔ برطانیہ میں سڑکوں پر بے ہودہ گانا گانا یا پرفارمنس دکھانا بھی خلافِ قانون ہے۔ 12۔ اٹلی کے شہر وینس میں سینٹ مارک اسکوائر پر کبوتروں کو دانا ڈالنا جرم ہے۔ اس کا مقصد کبوتروں کی تعداد کم کرنا ہے اور تاریخی عمارات کو نقصان سے بچانا ہے۔ 13۔ جرمنی کی پر ہجوم شاہراہ 'آٹو بان' پر گاڑی کا ایندھن ختم ہوجانے پر آپ کو جرمانہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس لئے یہاں سفر کے لئے پٹرول کی ایکسٹرا بوتل رکھنا ضروری ہے 14۔ اس شاہراہ پر سینڈل یا چپل پہن کر ڈرائیونگ کرنا بھی جرم ہے ۔ 15۔ بارسلونا: میں شہر کی سڑکوں اور گزرگاہوں پر تھوکنا غیر قانونی ہے۔ 16۔ یونان: میں اونچی ہیل کی سینڈل پہن کر تاریخی مقامات کا دورہ کرنا غیر قانونی ہے۔ 17۔ ڈنمارک: میں دن کے وقت سردیوں میں گاڑی کی ہیڈ لائٹس کو کم ازکم ڈِم رکھنا ضروری ہے ورنہ جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 18۔ اسی طرح ڈنمارک میں ہوٹل میں اس وقت تک بل کی ادائیگی کرنا ضروری نہیں ہے جب تک آپ خود سے اس بات کا اقرار نہیں کرتے کہ آپ کا پیٹ بھر چکا ہے۔ 19۔ امریکہ: ریاست ٹینیسی میں اگر آپ ڈرائیونگ کرتے ہوئے سو جائیں تو یہ جرم تصور کیا جائے گا۔ 20۔ واشنگٹن میں خود کو دولت مند والدین کی اولاد ظاہر کرنا جرم ہے۔ 21۔ ہونولولو ہوائی میں غروبِ آفتاب کے وقت گانا گانا غیر قانونی ہے۔ 22۔ ورجینیا میں ساحل سمندر پر پکنک منانے والوں کو شائستہ گفتگو کرنا ضروری ہے کیونکہ یہاں گالی گلوچ کرنا غیر قانونی ہے۔ 23۔ آسٹریلیا: میں اس جانور کا نام لینا غیر قانونی ہے جس کو آپ لنچ یا ڈنر میں کھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 24۔ وکٹوریہ میں الیکٹریشن کا لائسنس نہ ہونے پر گھر کا بلب تبدیل کرنا جرم ہے۔ 25۔ کینیڈا: میں کرنسی ایکٹ کے تحت دکاندار کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ ریز گاری لینے سے انکار کر سکتا ہے۔ 26۔ سنگا پور: میں چیونگم چبانا اخلاقی بد تہذیبی ہی نہیں بلکہ قانونی طور پر جرم ہے۔ 27۔ تھائی لینڈ: میں تھائی کرنسی 'بھات' پر موجود بادشاہ کی تصویر پر کھڑا ہونا غیر قانونی ہے۔ 28۔ الاسکا میں اپنے کتے کو گاڑی کی چھت پر بیٹھا کر سفر کرنا جرم ہے۔ 29۔ سپین میں یہ قانون ہے کہ اگر آپ کو نظر کی عینک لگی ہے تو ایک عینک آپ کی گاڑی میں بھی ہونی چاہیئے۔ 30۔ سائپرس میں گاڑی چلاتے ہوئے آپ کچھ بھی پی نہیں سکتے۔ یہاں تک کہ آپ پانی پیتے ہوئے بھی پکڑے گئے تو جرمانہ دینا پڑ سکتا ہے۔ 31۔ روس میں گندگی سے اٹی کار چلانا جرم ہے۔ 32۔ برازیل میں اگر کوئی کار ایکسیڈنٹ میں مارا جاتا ہے تو اس کا شراب پینے کا ٹیسٹ کرانا لازمی ہوتا ہے۔ 33۔ جنوبی افریکہ میں جانوروں کا سڑک پر سے گزرنے کے لئے اپنی گاڑی روکنا لازمی ہے۔ 34۔ اس کے علاوہ برونائی، ملائشیا اور انڈونیشیا میں بدبودار پھل بس، ہوٹل یا ہوائی اڈے پرکھانا جرم ہے۔ اسی طرح برما میں انٹر نیٹ حاصل کرنے والے کو جیل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

آلودگی سے منسوب چند چونکا دینے والے

0 comments
آلودگی سے منسوب چند چونکا دینے والے
حقائق آلودگی آج دنیا کے لیے ایک بہت بڑا اور خطرناک مسئلہ بن چکی ہے- اور یہ صورتحال مسلسل بدتر ہوتی جارہی ہے- نئی ٹیکنالوجیز کی آمد اور ہمارے ری سائیکل کے پراسس کو نہ اپنانے کی وجہ سے اس آلودگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے- آج اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو یہاں آلودگی سے متعلق چند چونکا دینے والے حقائق کے بارے بتاتے ہیں جو براہ راست انسان کو بری طرح سے متاثر کر رہے ہیں- 1۔ تقریباً 700 ملین چینی باشندے روزانہ آلودہ پانی پیتے ہیں- 2۔ ہر ایک ملین ٹن تیل جو بجری جہازوں کے ذریعے دوسرے ممالک ایکسپورٹ کیا جاتا ہے اس میں سے 1 ٹن سمندر میں ہی گر جاتا ہے- 3۔ اگر آپ بیجنگ کی آب و ہوا میں صرف ایک دن گزاریں تو آپ کی صحت پر مرتب ہونے والے مضر اثرات 21 سگریٹ پینے کے برابر ہوں گے- 4۔ امریکی آبادی دنیا کی آبادی کی 5 فیصد ہے لیکن ان کا دنیا بھر کی آلودگی میں 30 فیصد حصہ ہے جبکہ دنیا کے 25 فیصد وسائل امریکہ استعمال کرتا ہے- 5۔ دنیا میں ہونے والی ہر 8 اموات میں سے ایک موت کی وجہ ضرور آلودگی ہوتی ہے- 6۔ چین میں موجود آلودگی کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ اسے خلا سے بھی دیکھا جاسکتا ہے- 7۔ سمندری مخلوق پلاسٹک کے شاپنگ بیگ کو جیلی فش سمجھ کر نگل جاتی ہیں- سمندری مخلوق ان بیگ کو ایسی جیلی فش سمجھتی ہیں جنہیں وہ اپنی خوراک بنا سکتی ہیں- 8۔ ہر سال دنیا بھر کے سمندروں میں پھینکے جانے والے کچرے کا وزن 14 بلین پونڈ ہوتا ہے جس میں زیادہ پر پلاسٹک سے تیار کردہ اشیا ہوتی ہیں- 9۔ ایک دن ممبئی کی آب و ہوا میں گزارنا ایسا ہی ہے جیسے آپ نے 100 سگریٹ پھونک دیے ہوں- 10۔ ہر سال 3.4 ملین افراد صرف آلودہ پانی سے پیدا ہونے والے مسائل کے باعث موت کا شکار بن جاتے ہیں- 11۔ روس کی Karachay نامی جھیل دنیا کی سب سے آلودہ اور غلاظت سے بھرپور جھیل ہے- 12۔ سال 2012 میں 49 ملین وزنی کچرا صرف الیکٹرونک آئٹم پر مشتمل تھا- 13۔ اگر دنیا بھر میں پھینکی جانے میں والی پلاسٹک کی بوتلوں کو جلایا جائے تو انہیں ختم ہونے میں تقریباً 500 سال لگ جائیں گے- 14۔ دنیا میں ہر 8 سیکنڈ میں ایک بچہ آلودہ پانی کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتا ہے- 15۔ سان فرانسسکو میں موجود آلودگی کا ایک تہائی حصہ چین سے آتا ہے- — with Abubakar Abdull.

Tuesday, June 28, 2016

Hitler was also a Tax Theif

0 comments
Hitler was also a Tax Theif

بلعم بن باعوراء

0 comments
بلعم بن باعوراء
 یہ شخص حضرت موسی علیہ السلام کے دور کا بہت بڑا عالم اور عابد و زاہد تھا۔ اور اس کو اسم اعظم کا بھی علم تھا۔ یہ اپنی جگہ بیٹھا ہوا اپنی روحانیت سے عرش اعظم کو دیکھ لیا کرتا تھا۔ اور بہت ہی مستجاب الدعوات تھا کہ اس کی دعائیں بہت زیادہ مقبول ہوا کرتی تھیں۔ اس کے شاگردوں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی، مشہور یہ ہے کہ اس کی درسگاہ میں طالب علموں کی دواتیں بارہ ہزار تھیں۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ''قوم جبارین'' سے جہاد کرنے کے لئے بنی اسرائیل کے لشکروں کو لے کر روانہ ہوئے تو بلعم بن باعوراء کی قوم اس کے پاس گھبرائی ہوئی آئی اور کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت ہی بڑا اور نہایت ہی طاقتور لشکر لے کر حملہ آور ہونے والے ہیں۔ اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم لوگوں کو ہماری زمینوں سے نکال کر یہ زمین اپنی قوم بنی اسرائیل کو دے دیں۔ اس لئے آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے ایسی بددعا کر دیجئے کہ وہ شکست کھا کر واپس چلے جائیں۔ آپ چونکہ مستجاب الدعوات ہیں اس لئے آپ کی دعا ضرور مقبول ہوجائے گی۔ یہ سن کر بلعم بن باعوراء کانپ اٹھا۔ اور کہنے لگا کہ تمہاری ہلاکت ہو۔ خدا کی پناہ! حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ عزوجل کے رسول ہیں۔ اور ان کے لشکر میں مومنوں اور فرشتوں کی جماعت ہے ان پر بھلا میں کیسے اور کس طرح بددعا کرسکتا ہوں؟ لیکن اس کی قوم نے رو رو کر اور گڑگڑا کر اس طرح اصرار کیا کہ اس نے یہ کہہ دیا کہ استخارہ کرلینے کے بعد اگر مجھے اجازت مل گئی تو بددعا کردوں گا۔ مگر استخارہ کے بعد جب اس کو بددعا کی اجازت نہیں ملی تو اس نے صاف صاف جواب دے دیا کہ اگر میں بددعا کروں گاتو میری دنیا و آخرت دونوں برباد ہوجائیں گی۔ اس کے بعد اس کی قوم نے بہت سے گراں قدر ہدایا اور تحائف اس کی خدمت میں پیش کر کے بے پناہ اصرار کیا۔ او ر اس کی تعریفوں کے پل باندھ دئیے ۔ اور اس کو حضرت موسی علیہ السلام سے زیادہ عالی مقام و مرتبے والا بنا دیا ۔۔یہاں تک کہ بلعم بن باعوراء تکبر میں آگیا اور اس پر حرص اور لالچ کا بھوت بھی سوار ہو گیا، اور وہ تکبر اور مال کے جال میں پھنس گیا۔ آہ دنیاوی مال کی حرص اور تکبرکیسے کیسوں کو برباد کردیتا ہے۔ اسی مال و زر کی حرص اور کبر کی وجہ سے وہ اپنی گدھی پر سوار ہو کر بددعا کے لئے چل پڑا۔ راستہ میں بار بار اس کی گدھی ٹھہر جاتی اور منہ موڑ کر بھاگ جانا چاہتی تھی۔ مگر یہ اس کو مار مار کر آگے بڑھاتا رہا۔ یہاں تک کہ گدھی کو اللہ تعالیٰ نے گویائی کی طاقت عطا فرمائی۔ اور اس نے کہا کہ افسوس! اے بلعم باعوراء تو کہاں اور کدھر جا رہا ہے؟ دیکھ! میرے آگے فرشتے ہیں جو میرا راستہ روکتے اور میر امنہ موڑ کر مجھے پیچھے دھکیل رہے ہیں۔ اے بلعم! تیرا برا ہو کیا تو اللہ کے نبی اور مومنین کی جماعت پر بددعا کریگا؟ گدھی کی تقریر سن کر بھی بلعم بن باعوراء واپس نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ ''حسبان'' نامی پہاڑ پر چڑھ گیا۔ اور بلندی سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لشکروں کو بغور دیکھا اور تکبر و مال و دولت کے لالچ میں اس نے بددعا شروع کردی۔ لیکن خدا عزوجل کی شان کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے بددعا کرتا تھا۔ مگر اس کی زبان پر اس کی قوم کے لئے بددعا جاری ہوجاتی تھی۔ یہ دیکھ کر کئی مرتبہ اس کی قوم نے ٹوکا کہ اے بلعم! تم تو الٹی بددعا کررہے ہو۔ تو اس نے کہا کہ اے میری قوم! میں کیا کروں میں بولتا کچھ اور ہوں اور میری زبان سے کچھ اور ہی نکلتا ہے۔ پھر اچانک اس پر یہ غضب ِ الٰہی نازل ہو گیا کہ ناگہاں اس کی زبان لٹک کر اس کے سینے پر آگئی۔ اس وقت بلعم بن باعوراء نے اپنی قوم سے رو کر کہا کہ افسوس میری دنیا و آخرت دونوں برباد و غارت ہوگئیں۔ میرا ایمان جاتا رہا اور میں قہر قہار و غضب جبار میں گرفتار ہو گیا۔ اب میری کوئی دعا قبول نہیں ہوسکتی۔ مگر میں تم لوگوں کو مکر کی ایک چال بتاتا ہوں تم لوگ ایسا کرو تو شاید حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لشکروں کو شکست ہوجائے۔ تم لوگ ہزاروں خوبصورت لڑکیوں کو بہترین پوشاک اور زیورات پہنا کر بنی اسرائیل کے لشکروں میں بھیج دو۔ اگر ان کا ایک آد می بھی زنا کریگا تو پورے لشکر کو شکست ہوجائے گی۔ چنانچہ بلعم بن باعوراء کی قوم نے اس کے بتائے ہوئے مکر کا جال بچھایا۔ اور بہت سی خوبصورت دوشیزاؤں کو بناؤ سنگھار کرا کر بنی اسرائیل کے لشکروں میں بھیجا۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل کا ایک رئیس ایک لڑکی کے حسن و جمال پر فریفتہ ہو گیا اور اس کو اپنی گود میں اٹھا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے گیا۔ اور فتویٰ پوچھا کہ اے اللہ عزوجل کے نبی! یہ عورت میرے لئے حلال ہے یا نہیں؟ آپ نے فرمایا کہ خبردار! یہ تیرے لئے حرام ہے۔ فوراً اس کو اپنے سے الگ کردے۔ اور اللہ عزوجل کے عذاب سے ڈر۔ مگر اس رئیس پر غلبہ شہوت کا ایسا زبردست بھوت سوار ہو گیا تھا کہ وہ اپنے نبی علیہ السلام کے فرمان کو ٹھکرا کر اُس عورت کو اپنے خیمہ میں لے گیا۔ اور برائی کا مرتکب ہوا جس سے حضرت موسی علیہ السلام نے منع فرمایا تھا۔ اس گناہ کی نحوست کا یہ اثر ہوا کہ بنی اسرائیل کے لشکر میں اچانک طاعون (پلیگ)کی وبا پھیل گئی اور گھنٹے بھر میں ستر ہزار آدمی مر گئے اور سارا لشکر تتر بتر ہو کر ناکام و نامراد واپس چلا آیا۔ جس کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قلب ِ مبارک پر بہت ہی صدمہ گزرا۔ (تفسیر الصاوی،ج۲،ص۷۲۷،پ۹،الاعراف، :۱۷۵) بلعم بن باعوراء پہاڑ سے اتر کر مردود بارگاہِ الٰہی ہو گیا۔ آخری دم تک اس کی زبان اس کے سینے پر لٹکتی رہی اور وہ بے ایمان ہو کر مر گیا۔ اس واقعہ کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ ترجمہ :۔ اور اے محبوب انہیں اس کا احوال سناؤ جسے ہم نے اپنی آیتیں دیں تو وہ ان سے صاف نکل گیا تو شیطان اس کے پیچھے لگا تو گمراہوں میں ہو گیا۔ اور ہم چاہتے تو آیتوں کے سبب اسے اٹھا لیتے مگر وہ تو زمین پکڑ گیا اور اپنی خواہش کا تابع ہوا تو اس کا حال کتے کی طرح ہے تو اس پر حملہ کرے تو زبان نکالے اور چھوڑ دے تو زبان نکالے یہ حال ہے ان کا جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں تو تم نصیحت سناؤ کہ کہیں وہ دھیان کریں۔ (پ9،الاعراف:175،176) بلعم بن باعوراء کیوں ذلیل ہوا؟ روایت ہے کہ بعض انبیاء کرام نے خدا تعالیٰ سے دریافت کیا کہ تونے بلعم بن باعوراء کو اتنی نعمتیں عطا فرما کر پھر اس کو کیوں اس قعرِ مذلت میں گرا دیا؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اُس نے میری نعمتوں کا کبھی شکر ادا نہیں کیا۔ اگر وہ شکر گزار ہوتا تو میں اس کی کرامتوں کو سلب کر کے اس کو دونوں جہاں میں اس طرح ذلیل و خوار اور غائب و خاسر نہ کرتا۔ (تفسیر روح البیان،ج۳،ص۱۳۹،پ۸،الاعراف :۱۰) درسِ ہدایت:۔بلعم بن باعوراء کی اس سرگزشت سے چند اسباقِ ہدایت ملتے ہیں:۔ (۱)اس سے اُن عالموں اور لیڈروں کو سبق حاصل کرنا چاہے جو مالداروں یا حکومتوں سے رقمیں لے کر خلافِ شریعت باتیں کرتے ہیں اور جان بوجھ کر اپنے دین و ایمان کا سودا کرتے ہیں۔ دیکھ لو بلعم بن باعوراء کیا تھا اور کیا ہو گیا؟ یہ کیوں ہوا؟ اس لئے اور صرف اس لئے کہ وہ مال و دولت کے لالچ میں گرفتار ہو گیا اور دانستہ اللہ عزوجل کے نبی پر بددعا کرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ تو اس کا اس پر یہ وبال پڑا کہ دنیا و آخرت میں ملعون ہوکر اس طرح مردود مطرود ہو گیا کہ عمر بھر کتے کی طرح لٹکتی ہوئی زبان لئے پھرا اور آخرت میں جہنم کی بھڑکتی اور شعلہ بار آگ کا ایندھن بن گیا۔ لہٰذا ہر مسلمان خصوصاً علماء و مشائخ کو مال و دولت کے حرص اور لالچ کے جال سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہے اور ہرگز کبھی بھی مال کی طمع میں دین کے اندر مداہنت نہیں کرنی چاہے۔ ورنہ خوب سمجھ لو کہ قہرِ الٰہی عزوجل کی تلوار لٹک رہی ہے۔ (والعیاذ باللہ منہ) (۲)اس سانحہ سے عام مسلمان بھی یہ سبق سیکھیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا لشکر جس میں ملائکہ اور مومنین تھے۔ ظاہر ہے کہ اس لشکر کے ناکام ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا کیونکہ یہ ایسا روحانی اور ملکوتی لشکر تھا کہ ان کے گھوڑوں کی ٹاپ سے پہاڑ لرزہ براندام ہوجاتے ،مگر صرف ایک بدنصیب کے گناہ کے سبب ایسی نحوست پھیل گئی کہ ملائکہ لشکر سے الگ ہوگئے اور طاعون کے عذاب نے پورے لشکر میں ایسی ابتری پھیلا دی کہ پورا لشکر بکھر گیا۔ اور یہ فوج ظفر موج ناکام و نامراد ہو کر پسپا ہو گئی۔ اس لئے مسلمانوں کو لازم ہے کہ اگر وہ کفار کے مقابلہ میں مظفر و منصور اور فتح یاب ہونا چاہتے ہیں تو ہر وقت گناہوں اور بدکاریوں کی نحوستوں سے بچتے رہیں ورنہ فرشتوں کی مدد ختم ہوجائے گی۔ اور مسلمانوں کا رعب کفار کے دلوں سے نکل جائے گا اور مسلمانوں کو نہ صرف ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا بلکہ ان کی عسکری طاقت ہی فنا ہوجائے گی اور پوری قوم صفحہ ہستی سے حرف ِ غلط کی طرح مٹ جائے گی۔ (نعوذباللہ منہ)

درویشوں کے حکمت بھرے اقوال

0 comments
درویشوں کے حکمت بھرے اقوال آج اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو بزرگوں کے حکمت بھرے اقوال سناتے ہیں ان کے صیحح ادراک کے لئے ان کو بار بار پڑھنا ضروری ہے۔ 1۔ مصیبت کے وقت تو اللہ تعالیٰ کا پتہ چل جاتاہے لیکن جب وہ ختم ہوتی ہے تو کہتے ہیں راستہ کدھر ہے۔ 2۔ اگرچہ تو بیکار پتھر مرمر ہے لیکن کسی صاحب دل کے پاس پہنچے گا تو گوہر بن جائے گا۔ 3۔ تقرب کے لئے اوپر نیچے جانا نہیں ہے اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے اپنے وجود کی قید سے لوٹنا ہے۔ 4۔ تو اللہ کو بھی چاہتا ہے اور ذلیل دنیا کو بھی یہ خیال پاگل پن اور محال بات ہے۔ 5۔ جو اللہ تعالی کے سامنے سر رکھ دے وہی بادشاہ ہے۔ اس خاکی دنیا کے علاوہ اللہ اپنے مقرب بندوں کو سینکڑوں سلطنتیں عطا کر دیتا ہے۔ 6۔ عشق آگیا تو عقل بیچاری بیکار ہو گئی۔ سورج نکلا تو شمع کی کو ئی حقیت نہ رہتی۔ عقل کو تنقید سے فرصت نہیں عشق پہ اعمال کی بنیاد رکھ 7۔ جب آسمان سے پانی برستا ہے تو زمین پر پھول اور غنچے کھلتے ہیں اور جب اللہ کی محبت یا خوف سے آنسو جاری ہوتے ہیں تو اللہ کی رحمت برستی ہے۔ 8۔ سو کتابوں اور اوراق کو آگ میں ڈال اپنے دل کا چہرہ دلدار کی جانب کردے۔ 9۔ عقل اور عشق میں یہ فرق ہے کہ عقل کا راستہ ہیچ کے سوا کچھ نہیں اور عشق کا راستہ اللہ کے راستے کے سواکچھ نہیں۔ 10۔ ہر شخص اگر پہلے ہی اپنا عیب دیکھ لیتا تو اپنی اصلاح سے کب کا فارغ ہوچکا ہوتا۔ 11۔ اگر کوئی عیب تجھ میں نہیں تو اس پر مطمئن نہ ہوجا ہوسکتا ہے کہ وہ عیب تجھ میں ظاہر ہو جائے۔ 12۔ جب تک کوئی شخص اپنے آپ کو حق تعالیٰ کی صحبت میں فنا نہ کر دے اسکو بارگاہ الٰہی میں بازیابی حاصل نہیں ہوگی۔ 13۔ جب اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ دوستی کرنا چاہتا ہے تو ہمارا میل یعنی رجحان آہ و زاری کی طرف کر دیتا ہے۔ 14۔ مصطفےٰ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے چہرے کا آئینہ ہیں۔ ان میں رب کریم کی ہر صفت منعکس ہے۔کیونکہ حقیقی اللہ والے ہی وہ ہیں جن کے چہرے پر نظر پڑتے ہی اللہ یاد آجائے۔ 15۔ اللہ تعالی نے ہر فرد کو ایک خدمت عطا کی ہے جو اسکی استعداد کے مطابق ہے اور آزمائش کے لئے ہے۔ اس لئے آزمائش میں صبر ضروری ہے۔ 16۔ عشق ایسا شعلہ ہے کہ جب وہ بھڑکتا ہے تو معشوق(حقیقی) کے سوا تمام چیزوں کو جلا ڈالتا ہے۔ 17۔ روح کی تاثیر باخبری ہوتی ہے جس کو یہ زیادہ حاصل ہے وہ اللہ والا ہے۔ 18۔ بدن روح سے ہے اور روح بدن سے دور نہیں۔ لیکن کسی کے لئے روح کو دیکھنے کا دستور ہی نہیں۔ 19۔ جب قضا آتی ہے تو خرگوش کے ہاتھوں شیر کو بھی مات ہو جاتی ہے۔اس لئے غرور صرف اللہ کی ذات کے لئے ہی ہے۔ 20۔ مایوسی وہ آخری نتیجہ ہے جہاں ہمیشہ بزدل پہنچتا ہے۔ 21۔ ہنسو ضرور لیکن اتنا کے رونے کی نوبت نہ آئے۔ 22۔ اگر کچھ لینے کی خواہش ہو تو بزرگوں کی دعا لو۔ 23۔ اگر کچھ دینے کی خواہش ہو تو اللہ کی راہ میں دو۔ 24۔ حق پر چلنے والوں کا پاؤں شیطان کے سینے پر ہوتا ہے۔ 25۔ جو علم کو دنیا کمانے کے لیے حاصل کرتا ہے علم اس کے قلب میں جگہ نہیں پاتا۔ 26۔ جب خلقت کے پاس آؤ تو زبان کی نگہداشت کرو۔ 27۔ بعض اوقات اللہ کا بندے کی درخواست کو قبول نہ کرنا بندے پر شفقت کی وجہ سے ہوتا ہے۔اس لئے دعا قبول نہ بھی ہوتو اس سے مانگتے رہنا چاہیئے۔ 28۔ تین کام کسی کے دل میں آپ کی عزت کو بڑھاتے ہیں ۔سلام کرنا۔کسی کو جگہ دینا۔اچھے نام سے پُکارنا 29۔ خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش رہے ۔ 30۔ بد ترین شخص وہ ہے جو توبہ کی امید پر گناہ کرے۔ اے میرے پیارے اللہ ہمیں اپنے عشق کے سمندروں میں سے ایک قطرہ عطاء فرما جو تیرے علاوہ ہمیں سب سے بے نیاز کردے۔

جہنم کیسی ہے کہاں ہے اور اسکی سزائیں کیا کیا ہیں

0 comments
جہنم کیسی ہے کہاں ہے اور اسکی سزائیں کیا کیا ہیں جنت کے بارے میں میرے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں نے معلومات پڑھ لی ہوں گی۔ آئیے آج جہنم کے بارے میں عبرت ناک معلومات پڑھیں اور اللہ کریم سے اس ہولناک جگہ سے پناہ مانگیں۔ 1۔جہنم کیا ہے:۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں ، مشرکوں ، منافقوں اور دوسرے مجرموں اور گناہ گاروں کو عذاب اور سزا دینے کیلئے آخرت میں جو ایک نہایت ہی خوفناک اور بھیانک مَقام تیار کر رکھا ہے اُس کا نام '' جہنم'' ہے اور اُسی کو اُردو میں ''دوزخ'' بھی کہتے ہیں۔ 2۔جہنم کہاں ہے:۔ ایک قول یہ ہے کہ ''دوزخ'' ساتویں زمین کے نیچے ہے۔(شرح العقائد النسفیۃ،،حاشیہ۹،ص۱۰۵) 3۔جہنم کے طبقا ت:۔ قرآن مجید کی آیت مبارکہ ہے:ترجمہ : اُ س کے سات دروازے ہیں ہر دروازے کیلئے اِن میں سے ایک حصہ بٹا ہواہے۔(پ14،الحجر:44) ا س آیت کی تفسیر میں مفسرین کا قول ہے کہ جہنم کے سات طبقات ہیں جن کے نام یہ ہیں : (۱)جَہَنَّم (۲)لَظَی (۳)حُطَمَہ (۴)سَعِیْر (۵)سَقَر (۶)جَحِیْم (۷) ہَاوِیَہ پوری آیت کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ شیطان کی پیروی کرنے والے بھی سات حصوں میں منقسم ہیں ان میں سے ہر ایک کیلئے جہنم کا ایک طبقہ معین ہے۔ (حاشیۃ الصاوی علی الجلالین،ج۳،ص۱۰۴۳،پ۱۴،الحجر:۴۴) 4۔جہنم کی خوفناک شکل:۔ حدیث شریف میں ہے کہ جہنم جب قیامت کے دن اپنی جگہ لائی جائے گی تو اس کو ستر ہزار لگامیں لگائی جائیں گی اور ہر لگام کو ستر ہزار فرشتے کھینچتے ہوں گے۔ (صحیح مسلم،کتاب الجنۃوصفۃ...الخ،باب فی شد ۃحر جہنم ،الحدیث ۲۸۴۲،ص۱۵۲۳) 5۔جہنم کا داروغہ:۔ جہنم کے داروغہ کا نام ''مالک''علیہ السلام ہے ۔یہ ایک فرشتہ ہیں اِ ن ہی کے زیر اہتمام دوزخیوں کو ہر قسم کا عذاب دیا جائے گا۔ 6۔عذاب جہنم کی چند صورتیں:۔ جہنم میں دوزخیوں کو طرح طرح کے خوفناک اور بھیانک عذا ب میں مبتلا کیا جائے گا۔ اُن عذابوں کی قسموں اور اُن کی کیفیتوں کو خداو ند ِ علامُ الغیوب کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جہنم میں دی جانیوالی سزاؤں کو دنیا میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ عذاب کی چندصورتیں ہیں جن کا حدیثوں میں تذکرہ آیا ہے اُن میں سے بعض یہ ہیں۔ i۔آگ کا عذ ا ب دوزخیوں کو جہنم کی آگ میں بار بار جلایا جائے گا جب وہ جل بھن کر کوئلہ ہو جائیں گے تو پھر دوبارہ ان کو نئے گوشت اور نئے چمڑے کے ساتھ زندہ کیا جائے گا۔اور پھر اُن کو آگ میں جلایا جائے گا یہ عذاب بار بار ہوتا رہے گا۔جہنم کی آگ کی گرمی کا یہ عالم ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کہ فرشتوں نے ایک ہزار برس تک جہنم کی آگ کو بھڑکایا تو وہ سرخ ہو گئی، پھر دوبا رہ ایک ہزار برس تک بھڑکائی گئی تو وہ سفید ہو گئی، پھر تیسری بار جب ایک ہزار برس تک بھڑکائی گئی تو وہ کالے رنگ کی ہو گئی تو وہ نہایت ہی خوفناک سیاہ رنگ کی ہے۔ (سنن الترمذی،کتاب صفۃ جہنم،باب منہ،الحدیث۲۶۰۰،ج۴،ص۲۶۶) ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جہنم کی آگ کی گرمی دُنیا کی آگ کی گرمی سے اُ نہتر درجے زیادہ ہے۔(صحیح البخاری،کتاب بدء الخلق،باب صفۃالنار...الخ،الحدیث۳۲۶۵،ج۲،ص۳۹۶) ایک دوسری حدیث میں یہ بھی ہے کہ جہنم میں آگ کا ایک پہاڑ ہے جس کی بلندی ستر برس کا راستہ ہے،اس پہاڑ کا نام صعود ہے۔ دوزخیوں کو اس کے اُوپر چڑھایا جائے گا توستر برس میں وہ اُس کی بلندی پر پہنچیں گے پھراُن کو اُوپر سے گرایا جائے گا تو ستر برس میں نیچے پہنچیں گے۔ اِسی طرح ہمیشہ عذاب دیا جاتا رہے گا۔ (سنن الترمذی،کتاب صفۃ جہنم،باب فی صفۃ قعر جہنم،الحدیث۲۵۸۵،ج۴،ص۲۶۰) یہ بھی حدیث میں آیا ہے کہ دوزخی جہنم کی آگ میں جھلس کر ایسے مسخ ہو جائیں گے کہ اوپر کا ہونٹ سکڑ کر آدھے سر تک پہنچ جائے گا اوراسی طرح نچلا ہونٹ لٹک کر ناف تک پہنچ جائے گا۔ ( سنن الترمذی،کتاب صفۃ جہنم،باب ما جاء فی صفۃ طعام اہل النار،الحدیث۲۵۹۶،ج۴،ص۲۶۴) یہ بھی روایت ہے کہ جہنم میں ایک تنور ہے جو اندر سے بہت چوڑا اور اُوپر سے بہت کم چوڑا ہے اُس میں زنا کار عورتوں اور مردوں کو ڈال دیا جائے گا تو آگ کے شعلوں میں وہ سب جلتے ہوئے تنور کے منہ تک اوپر آ جائیں گے پھر ایک دم وہ شعلے بجھ جائیں گے تو وہ سب اوپر سے نیچے تنور کی گہرائی میں گر پڑیں گے۔ (صحیح البخاری،کتاب الجنائز،باب ،الحدیث۱۳۸۶ملخصاً،ج۱،ص۴۶۷) ii.خونیں د ریا کا عذ ا ب کچھ دوزخیوں کو خون کے دریا میں ڈال دیا جائے گاتو وہ تیرتے ہوئے کنارہ کی طرف آئیں گے تو ایک فرشتہ ایک پتھر کی چٹان اُن کے منہ پر اِس زور سے مارے گا کہ وہ پھر بیچ دریا میں پلٹ کر چلے جائیں گے ۔ بار بار یہی عذاب اُن کو دیا جاتا رہے گا۔ یہ سود خوروں کا گروہ ہو گا۔ (صحیح البخاری،کتاب الجنائز،باب ،الحدیث۱۳۸۶ملخصاً،ج۱،ص۴۶۷) iii.گلپھڑے چیرنے کا عذ ا ب کچھ لوگوں کو جہنم میں اس طرح عذاب دیا جائے گا کہ ایک فرشتہ اُن کو لٹا کر ایک سنسی اُن کے منہ میں ڈالے گا اور ایک گلپھڑ ے کو اس قدرپھاڑ دے گا کہ اُس کا شگاف اُس کے سر کے پچھلے حصہ تک پہنچ جائے گا،پھر اِسی طرح دوسرے گلپھڑے کو پھاڑ دے گا جب تک پہلاگلپھڑا درست ہو جائے گا پھر اِس کو پھاڑ دے گااِسی طرح گلپھڑے درست ہوتے رہیں گے اور وہ فرشتہ اُن کو سنسی کی پکڑ سے چیرتا اور پھاڑتا رہے گا۔ یہ جھوٹ بولنے والوں کا گروہ ہو گا۔ (المرجع السابق) iv.پتھراؤ کا عذاب کچھ جہنمیوں کو اِس طرح کا عذاب دیا جائے گا کہ ایک فرشتہ اُن کو لٹا کر اُن کے سروں پر ایک پتھر اِس زور سے مارے گا کہ اُن کا سر کچل جائے گا اور وہ پتھر لڑھک کر کچھ دور چلا جائے گا پھر وہ فرشتہ جب تک اُس پتھر کو اُٹھا کر لائے گا اُس کے سر کا زخم اچھا ہو چکا ہو گا پھر وہ پتھر مارے گا تو سر کچل جائے گا اور پتھر پھر لڑھک کر دور چلا جائے گا پھر فرشتہ پتھر اُٹھا کر لائے گا اور پھروہ پتھر مار کراُس کا سر کچل دے گا اِسی طرح لگا تار یہی عذاب ہوتا رہے گا۔(المرجع السابق) v.مُنہ نوچنے کا عذ ا ب یہ بھی حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم شب معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرے جو (جہنم میں) تانبے کے ناخنوں سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے۔ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پوچھا کہ اے جبریل ! یہ کون لوگ ہیں؟ تو حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جوآدمیوں کا گوشت کھاتے تھے( یعنی لوگوں کی غیبت کرتے تھے )اور لوگوں کی آبروریزی کرتے تھے۔ (سنن ابی داود،کتاب الادب،باب فی الغیبۃ، الحدیث۴۸۷۸، ج۴،ص۳۵۳) vi.سانپ بچھو کا عذ ا ب حدیث میں ہے کہ عجمی اُونٹوں کے مثل بڑے بڑے سانپ ہوں گے جو جہنمیوں کو ڈستے ہوں گے وہ ایسے زہریلے ہوں گے کہ اگر ایک مرتبہ کاٹ لیں گے تو چالیس برس تک اُن کے زہر کا درد نہیں جائے گا اور لگام لگائے ہوئے خچروں کے برابر بڑے بڑے بچھو دوزخیوں کو ڈنک مارتے رہیں گے کہ ایک مرتبہ اُن کے ڈنک مارنے کی تکلیف چالیس برس تک باقی رہے گی ۔ ( المسند للامام احمدبن حنبل،مسند الشامیین، حدیث عبد اللہ بن الحارث،الحدیث۱۷۷۲۹،ج۶،ص۲۱۶) بعض دوزخیوں کے گلے میں سانپوں کا طوق پہنا دیا جائے گا جو نہایت ہی زہریلے ہوں گے اور وہ لگاتار کاٹتے رہیں گے۔ vii.حلق میں پھنسنے والے کھا نو ں کا عذ ا ب دوزخیوں کو حلق میں پھنسنے والا کھانا کھلایا جائے گا جو اُن کے حلق میں پھنس جائے گا اور اُن کا دم گھٹنے لگے گاتو وہ پانی مانگیں گے اُس وقت اُن کے سامنے اِتنا گرم پانی پیش کیا جائے گا جس کی گرمی کا یہ عالم ہو گا کہ برتن منہ کے سامنے لاتے ہی چہرہ کی پوری کھال جل بھن کر اور پگھل کر برتن میں گر جائے گی اور جب یہ پانی پیٹ میں جائے گا تو پیٹ کے اندر کے تمام اعضاء آنتوں وغیرہ کو جلا کر ٹکڑے ٹکڑے کر کے اُن کے پیروں پر گرا دے گا۔ (سنن الترمذی،کتاب صفۃ جہنم ،باب ماجاء فی صفۃ طعام اہل النار، الحدیث۲۵۹۵،ج۴،ص۲۶۳) قرآن مجید میں ہے کہ زقوم ( تھوہڑ) کادرخت جہنمیوں کو کھلایا جائے گا۔ (پ۲۵،الدخان:۴۳،۴۴)اور حدیث میں ہے کہ اگر زقوم کا ایک قطرہ زمین پر گر پڑے تو دنیا والوں کے کھانے پینے کی تمام چیزوں کو تلخ اور بدبودار بنا کر خراب کر دے ۔ (سنن الترمذی،کتاب صفۃجہنم،باب ماجاء فی صفۃشراب اہل النار، الحدیث۲۵۹۴،ج۴،ص۲۶۳) viii.گرم پا نی ا و ر پیپ کا عذ ا ب دوزخیوں کو گرم پانی جو روغن زیتون کے تلچھٹ کی طرح گندہ ہو گا پینا پڑے گاجو منہ کے قریب لاتے ہی چہرے کی پوری کھال کو پگھلا کر گرا دے گا اور یہی گرم پانی اُن کے سروں پر ڈالا جائے گا تویہ پانی پیٹ میں داخل ہو کر پیٹ کے اندر کے تمام اعضاء کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان کے قدموں پرگرا دے گا۔ (سنن الترمذی، کتاب صفۃ جہنم،باب ما جاء فی صفۃ شراب اہل النار، الحدیث۲۵۹۰، ۲۵۹۱ج۴،ص۲۶۱) اِسی طرح دوزخیوں کو جہنمیوں کے بدن کا پیپ اور پنچھابھی پلایا جائے گا۔ جس کو ''غساق'' کہتے ہیں۔ اُس کی بدبو کا یہ حال ہو گا کہ اگر ایک ڈول ''غساق'' دنیا میں گرا دیا جائے تو تمام دنیا بدبو سے بھر جائے ۔ (سنن الترمذی، کتاب صفۃ جہنم،باب ما جاء فی صفۃ شراب اہل النار، الحدیث۲۵۹۳،ج۴،ص۲۶۳) الحاصل جہنم میں طرح طرح کے عذابوں کے ساتھ دوزخیوں کو عذاب دیا جائے گا اور جس طرح جنت کی نعمتوں کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے نہ کسی کے دل میں اُس کا خیال گزرا ہے اِسی طرح جہنم کے عذابوں کو بھی نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے نہ کسی کے دل میں اُس کا خیال گزرا ہے۔ غرض جہنم میں قسم قسم کے ایسے ایسے بے مثل و بے مثال عذابوں کی بھرمار ہو گی کہ دنیا میں اُس کی مثال تو کہاں ،کوئی اُن کو سوچ بھی نہیں سکتا۔ اُوپر جو کچھ ہم نے تحریر کیا ہے وہ صرف سمجھانے کیلئے چند مثالیں لکھ دی ہیں، ورنہ جو کچھ لکھا گیاہے وہ جہنم کے عذابوں کا ہزارواں حصہ بھی نہیں۔ بس اُس کی مقدار اور کیفیتوں اور قسموں کو تو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔(جہنم کے خطرات سے ماخوذ) اللہ تعالیٰ ہرمسلمان کو جہنم کے عذابوں سے بچائے اور ایسے اعمال سے محفوظ رکھے جو جہنم میں لے جانے والے ہیں۔ آمین بجاہ النبی

اصحاب ایکہ کون تھے اور ان پر عذاب کیوں نازل ہوا

0 comments
اصحاب ایکہ کون تھے اور ان پر عذاب کیوں نازل ہوا
 ''ایکہ'' جھاڑی کو کہتے ہیں ان لوگوں کا شہر سرسبز جنگلوں اور ہرے بھرے درختوں کے درمیان تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی ہدایت کے لئے حضرت شعیب علیہ السلام کو بھیجا۔ عربی میں ایکہ ان سرسبز وشاداب جھاڑیوں کو کہتے ہیں جوہرے بھرے درختوں کی کثرت کی وجہ سے جنگلوں اور بنوں میں اُگی رہتی ہیں اور جھاندے کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ان دونوں باتوں کے جان لینے کے بعد مدین کی آبادی کا پتہ آسانی سے معلوم ہوسکتا ہے وہ یہ کہ مدین کا قبیلہ بحر قلزم کے مشرقی کنارہ اور عرب کے مغرب شمال میں ایسی جگہ آباد تھا جو شام کے متصل حجاز کا آخری حصہ کہا جا سکتا ہے اور حجازوالوں کو شام، فلسطین بلکہ مصر تک جانے میں اس کے کھنڈرراہ میں پڑتے تھے اور جو تبوک کے بالمقابل واقع تھا۔( معجم البلدان جلد ۵ص ۴۱۸) مفسرین اس بارہ میں مختلف ہیں کہ مدین اور اصحاب ایکہ ایک ہی قبیلہ کے دونام ہیں یا دوجدا جدا قبیلے ہیں، بعض کا خیال ہے کہ دونوں جدا جدا قبیلے ہیں، مدین متمدن اور شہری قبیلہ تھا اور ’’اصحاب ایکہ‘‘ دیہاتی اور بدوی قبیلہ جو جنگل اور بن میں آباد تھا اس لئے اس کو’’ بن والا‘‘ یا’’ جنگل والا‘‘ کہا گیا اور آیت انھمالبامام مبین میں’’ھما‘‘ ضمیر تثنیہ سے یہی دونوں مراد ہیں نہ کہ مدین اور قوم لوط۔ اور دوسرے مفسرین دونوں کو ایک ہی قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ آب وہوا کی لطافت، نہروں اور آبشاروں کی کثرت نے اس مقام کو اس قدر شاداب وپر فضا بنا دیا تھا اور یہاں میووں، پھلوں اور خوشبودار پھولوں کے اس قدر باغات اور چمن تھے کہ اگر ایک شخص آبادی سے باہر کھڑے ہو کر نظارہ کرتا تھا تو اس کو یہ معلوم ہوتا کہ یہ نہایت خوبصورت اور شاداب گھنے درختوں کا ایک جھنڈہے، اسی وجہ سے قرآن عزیز نے اس کو’’ ایکہ‘‘ کہہ کر تعارف کرایا۔ بہرحال حضرت شعیب علیہ السلام نے ''اصحاب ایکہ'' کے سامنے جو وعظ فرمایا وہ قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ، آپ نے فرمایاکہ ترجمہ:۔کیا ڈرتے نہیں بیشک میں تمہارے لئے اللہ کا امانت دار رسول ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو اور میں اس پرکچھ تم سے اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے ناپ پورا کرو اور گھٹانے والوں میں نہ ہو اور سیدھی ترازو سے تولو اور لوگوں کی چیزیں کم کر کے نہ دو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو اور اس سے ڈرو جس نے تم کو پیدا کیا اور اگلی مخلوق کو بولے تم پر جادو ہوا ہے تم تو نہیں مگر ہم جیسے آدمی اور بیشک ہم تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرادو اگر تم سچے ہو فرمایا میرا رب خوب جانتا ہے جو تمہارےکرتوت ہیں تو انہوں نے اسے جھٹلایا تو انہیں شامیانے والے دن کے عذاب نے آلیا۔ بیشک وہ بڑے دن کا عذاب تھا۔ (پ19،الشعراء:177 تا 189) خلاصہ یہ کہ ''اصحاب ایکہ''نے حضرت شعیب علیہ السلام کی مصلحانہ تقریر کو سن کر بدزبانی کی اور اپنی سرکشی اور غرور و تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پیغمبر کو جھٹلا دیا اور یہاں تک اپنی سرکشی کا اظہار کیا کہ پیغمبر سے یہ کہہ دیا کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا کر ہم کو ہلاک کردو۔ا س کے بعد اس قوم پر خداوند قہار و جبار کا قاہرانہ عذاب آگیا وہ عذاب کیا تھا؟ سنئے اور عبرت حاصل کیجئے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جہنم کا ایک دروازہ کھول دیا جس سے پوری آبادی میں شدید گرمی اور لو کی حرارت و تپش پھیل گئی اور بستی والوں کا دم گھٹنے لگا تو وہ لوگ اپنے گھروں میں گھسنے لگے اور اپنے اوپر پانی کا چھڑکاؤ کرنے لگے مگر پانی اور سایہ سے انہیں کوئی چین اور سکون نہیں ملتا تھا۔ اور گرمی کی تپش سے ان کے بدن جھلسے جارہے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ایک بدلی بھیجی جو شامیانے کی طرح پوری بستی پر چھا گئی اور اس کے اندر ٹھنڈک اور فرحت بخش ہوا تھی۔ یہ دیکھ کر سب گھروں سے نکل کر اس بدلی کے شامیانے میں آگئے جب تمام آدمی بدلی کے نیچے آگئے تو زلزلہ آیا اور آسمان سے آگ برسی۔ جس میں سب کے سب ٹڈیوں کی طرح تڑپ تڑپ کر جل گئے۔ ان لوگوں نے اپنی سرکشی سے یہ کہا تھا کہ اے شعیب! ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا کر ہم کو ہلاک کردو۔ چنانچہ وہی عذاب اس صورت میں اس سرکش قوم پر آگیا اور سب کے سب جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ (تفسیر صاوی،ج۴، ص ۱۴۷۴،پ۱۹، الشعرآء:۱۸۹) بعض مفسرین کے مطابق حضرت شعیب علیہ السلام دو قوموں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ ایک قوم ''مدین''دوسرے ''اصحاب ایکہ''ان دونوں قوموں نے آپ کو جھٹلادیا، اور اپنےگناہوں کا مظاہرہ اور اپنی سرکشی کا اظہار کرتے ہوئے ان دونوں قوموں نے آپ کے ساتھ بے ادبی اور بدزبانی کی اور دونوں قومیں عذابِ الٰہی سے ہلاک کردی گئیں۔ ''اصحاب مدین''پر تو یہ عذاب آیا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کی چیخ اور چنگھاڑ کی ہولناک آواز سے زمین دہل گئی اور لوگوں کے دل خوف ِ دہشت سے پھٹ گئے اور سب دم زدن میں موت کے گھاٹ اُتر گئے۔ اور ''اصحاب ایکہ''، ''عذاب یوم الظلۃ''سے ہلاک کردیئے گئے۔ (تفسیر صاوی،ج۴، ص ۱۴۷۳، پ۱۹، الشعرآء:۱۷۶) اللہ تعالی ہمیں اپنی نافرمانی سے بچائے۔ آمی

’يورپی يونين اپنی تاريخ کے سياہ دور میں داخل ہونے والی ہے‘

0 comments
’يورپی يونين اپنی تاريخ کے سياہ دور میں داخل ہونے والی ہے‘
 غير سرکاری تنظيموں کے ايک گروپ نے يورپی يونين کے رکن ممالک کے رہنماؤں پر زور ديا ہے کہ وہ افريقی ملکوں کو اپنے ہاں سے پناہ گزينوں کی يورپ ہجرت روکنے کے ليے مالی مراعات دينے سے متعلق متنازعہ منصوبوں کو مسترد کر ديں۔ يورپی يونين اپنے تاريخ کے ايک تاريک دور ميں داخل ہونے کو ہے۔‘ يہ تنبيہ ايک سو نو ’اين جی اووز‘ يا غير سرکاری تنظيموں کے اس گروپ نے کی ہے، جس ميں ايمنسٹی انٹرنيشنل اور ہيومن رائٹس واچ جيسے بڑے نام بھی شامل ہيں۔ گروپ نے رواں ہفتے کے آغاز پر جاری کردہ ايک بيان کے ذريعے يورپی رہنماؤں سے مطالبہ کيا ہے کہ وہ مہاجرين کی يورپ آمد روکنے کے ليے شمالی افريقہ ميں ان کے آبائی ممالک کے ساتھ متنازعہ معاہدے نہ کريں۔ قبل ازيں اسی ماہ يورپی کميشن کی جانب سے کچھ سفارشات پيش کی گئی تھيں، جن ميں شمالی افريقہ سے يورپی بر اعظم کی طرف ہونے والی غير قانونی ہجرت روکنے کے ليے اُن ممالک ميں نجی سرمايہ کاری بڑھانے کی تجويز شامل ہے، جہاں سے اکثريتی پناہ گزين يورپ ہجرت کر رہے ہيں۔ کميشن کے ايسے منصوبوں کا مقصد يہ ہے کہ متعلقہ ممالک کی اقتصاديات کو بہتر بنايا جائے تاکہ لوگ يورپ کا رخ نہ کريں۔ يورپی کميشن يہ بھی چاہتا ہے کہ مہاجرين کی ان کے آبائی ملکوں کی جانب جلد اور تيز رفتار واپسی ممکن بنانے کے ليے ان ملکوں کے ساتھ پہلے سے موجود معاہدوں کو بحال کيا جائے يا انہيں نئے سرے سے طے کيا جائے۔

نمک کے ذرے جتنا کیمرہ سرنج کے ذریعے جسم میں، نتائج ہوشربا

0 comments

نمک کے ذرے جتنا کیمرہ سرنج کے ذریعے جسم میں، نتائج ہوشربا

جرمن ماہرین نے نمک کے ذرے جتنا ایک انتہائی جدید مائیکرو کیمرہ تیار کر لیا ہے، جسے بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے دوران انسانی جسم کی اندرونی تصویر کشی کے لیے سرنج کے ذریعے کسی بھی مریض کے جسم میں بھیجا جا سکے گا۔ فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے منگل اٹھائیس جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق جرمن انجینیئرز کا تیار کردہ یہ نیا کیمرہ مستقبل میں صحت کے شعبے میں بیماریوں کی تشخیص کے عمل میں انقلاب لا سکتا ہے۔ یہ کیمرہ اپنی جسامت میں نمک کے ایک دانے یا ذرے سے بڑا نہیں ہے۔ اسے جنوبی جرمن شہر شٹٹ گارٹ کی یونیورسٹی کے محققین نے تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے تیار کیا ہے اور اس میں تین عدسے یا لینز لگے ہوئے ہیں۔ اس کیمرے کو ایک ایسی آپٹیکل فائبر تار کے سرے پر نصب کیا گیا ہے، جس کی موٹائی کسی انسان کے سر کے صرف دو بالوں کے برابر بنتی ہے۔ ’نیچر فوٹانکس‘ نامی جریدے کے تازہ ترین شمارے میں اس ’انقلابی‘ کیمرے سے متعلق شائع کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق اس طرح کے کیمروں کو مستقبل میں انسانی جسموں میں ’اینڈوسکوپس‘ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ ڈاکٹر حضرات ایسے کیمروں کو انسانی جسم میں داخل کر کے کسی بھی اندرونی حصے کی مکمل طبی تصویر کشی یا ’فوٹو امیجنگ‘ کر سکیں گے اور یہ عمل اب تک زیر استعمال مقابلتاﹰ بہت بڑی ’اینڈوسکوپس‘ کے مقابلے میں غیر محسوس حد تک آسان اور آرام دہ ہو گا۔ اس عمل کے دوران کسی مریض کو جو زیادہ سے زیادہ تکلیف برداشت کرنا پڑے گی، وہ محض اتنی ہی ہو گی جتنی کوئی ٹیکہ لگنے سے ہوتی ہے۔ صحت نمک کے ذرے جتنا کیمرہ سرنج کے ذریعے جسم میں، نتائج ہوشربا جرمن ماہرین نے نمک کے ذرے جتنا ایک انتہائی جدید مائیکرو کیمرہ تیار کر لیا ہے، جسے بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے دوران انسانی جسم کی اندرونی تصویر کشی کے لیے سرنج کے ذریعے کسی بھی مریض کے جسم میں بھیجا جا سکے گا۔ Screenshot Twitter FuturistechInfo فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے منگل اٹھائیس جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق جرمن انجینیئرز کا تیار کردہ یہ نیا کیمرہ مستقبل میں صحت کے شعبے میں بیماریوں کی تشخیص کے عمل میں انقلاب لا سکتا ہے۔ یہ کیمرہ اپنی جسامت میں نمک کے ایک دانے یا ذرے سے بڑا نہیں ہے۔ اسے جنوبی جرمن شہر شٹٹ گارٹ کی یونیورسٹی کے محققین نے تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے تیار کیا ہے اور اس میں تین عدسے یا لینز لگے ہوئے ہیں۔ اس کیمرے کو ایک ایسی آپٹیکل فائبر تار کے سرے پر نصب کیا گیا ہے، جس کی موٹائی کسی انسان کے سر کے صرف دو بالوں کے برابر بنتی ہے۔ ’نیچر فوٹانکس‘ نامی جریدے کے تازہ ترین شمارے میں اس ’انقلابی‘ کیمرے سے متعلق شائع کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق اس طرح کے کیمروں کو مستقبل میں انسانی جسموں میں ’اینڈوسکوپس‘ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ ڈاکٹر حضرات ایسے کیمروں کو انسانی جسم میں داخل کر کے کسی بھی اندرونی حصے کی مکمل طبی تصویر کشی یا ’فوٹو امیجنگ‘ کر سکیں گے اور یہ عمل اب تک زیر استعمال مقابلتاﹰ بہت بڑی ’اینڈوسکوپس‘ کے مقابلے میں غیر محسوس حد تک آسان اور آرام دہ ہو گا۔ اس عمل کے دوران کسی مریض کو جو زیادہ سے زیادہ تکلیف برداشت کرنا پڑے گی، وہ محض اتنی ہی ہو گی جتنی کوئی ٹیکہ لگنے سے ہوتی ہے۔ طبی حوالے سے ہٹ کر ’اب تک ناقابل تصور حد تک چھوٹی جسامت والے‘ ان کیمروں کی ایک خاص بات یہ بھی ہو گی کہ انہیں ’عملاﹰ نظر نہ آسکنے والے سکیورٹی کیمروں‘ کے طور پر بھی استعمال میں لایا جا سکے گا اور منی روبوٹس پر بھی نصب کیا جا سکے گا۔ ’نیچر فوٹانکس‘ کی رپورٹ کے مطابق اس کیمرے کے تیار کنندہ انجینیئرز کو یہ کیمرہ ڈیزائن، اسے تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے تیار اور پھر اس کا کامیاب تجربہ کرنے میں کُل صرف چند گھنٹے لگے۔ اس کیمرے کا کمپاؤنڈ لینز صرف 100 مائیکرو میٹر (0.1 ملی میٹر یا 0.004 انچ) چوڑا ہے، جس کے بعد اس کیمرے کی بیرونی ڈھانچے یا خول سمیت حتمی چوڑائی محض 120 مائیکرو میٹر بنتی ہے۔ مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ کیمرہ کسی بھی شے یا جگہ کی محض تین ملی میٹر کے فاصلے سے بھی پورے فوکس کے ساتھ واضح تصویر کشی کر سکتا ہے اور اس کے ساتھ لگائی گئی آپٹیکل فائبر تار کی لمبائی 1.7 میٹر یا 5.6 فٹ بنتی ہے۔ صحت نمک کے ذرے جتنا کیمرہ سرنج کے ذریعے جسم میں، نتائج ہوشربا جرمن ماہرین نے نمک کے ذرے جتنا ایک انتہائی جدید مائیکرو کیمرہ تیار کر لیا ہے، جسے بیماریوں کی تشخیص اور علاج کے دوران انسانی جسم کی اندرونی تصویر کشی کے لیے سرنج کے ذریعے کسی بھی مریض کے جسم میں بھیجا جا سکے گا۔ Screenshot Twitter FuturistechInfo فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے منگل اٹھائیس جون کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق جرمن انجینیئرز کا تیار کردہ یہ نیا کیمرہ مستقبل میں صحت کے شعبے میں بیماریوں کی تشخیص کے عمل میں انقلاب لا سکتا ہے۔ یہ کیمرہ اپنی جسامت میں نمک کے ایک دانے یا ذرے سے بڑا نہیں ہے۔ اسے جنوبی جرمن شہر شٹٹ گارٹ کی یونیورسٹی کے محققین نے تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے تیار کیا ہے اور اس میں تین عدسے یا لینز لگے ہوئے ہیں۔ اس کیمرے کو ایک ایسی آپٹیکل فائبر تار کے سرے پر نصب کیا گیا ہے، جس کی موٹائی کسی انسان کے سر کے صرف دو بالوں کے برابر بنتی ہے۔ ’نیچر فوٹانکس‘ نامی جریدے کے تازہ ترین شمارے میں اس ’انقلابی‘ کیمرے سے متعلق شائع کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق اس طرح کے کیمروں کو مستقبل میں انسانی جسموں میں ’اینڈوسکوپس‘ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ ڈاکٹر حضرات ایسے کیمروں کو انسانی جسم میں داخل کر کے کسی بھی اندرونی حصے کی مکمل طبی تصویر کشی یا ’فوٹو امیجنگ‘ کر سکیں گے اور یہ عمل اب تک زیر استعمال مقابلتاﹰ بہت بڑی ’اینڈوسکوپس‘ کے مقابلے میں غیر محسوس حد تک آسان اور آرام دہ ہو گا۔ اس عمل کے دوران کسی مریض کو جو زیادہ سے زیادہ تکلیف برداشت کرنا پڑے گی، وہ محض اتنی ہی ہو گی جتنی کوئی ٹیکہ لگنے سے ہوتی ہے۔ طبی حوالے سے ہٹ کر ’اب تک ناقابل تصور حد تک چھوٹی جسامت والے‘ ان کیمروں کی ایک خاص بات یہ بھی ہو گی کہ انہیں ’عملاﹰ نظر نہ آسکنے والے سکیورٹی کیمروں‘ کے طور پر بھی استعمال میں لایا جا سکے گا اور منی روبوٹس پر بھی نصب کیا جا سکے گا۔ ’نیچر فوٹانکس‘ کی رپورٹ کے مطابق اس کیمرے کے تیار کنندہ انجینیئرز کو یہ کیمرہ ڈیزائن، اسے تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے تیار اور پھر اس کا کامیاب تجربہ کرنے میں کُل صرف چند گھنٹے لگے۔ اس کیمرے کا کمپاؤنڈ لینز صرف 100 مائیکرو میٹر (0.1 ملی میٹر یا 0.004 انچ) چوڑا ہے، جس کے بعد اس کیمرے کی بیرونی ڈھانچے یا خول سمیت حتمی چوڑائی محض 120 مائیکرو میٹر بنتی ہے۔ مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ کیمرہ کسی بھی شے یا جگہ کی محض تین ملی میٹر کے فاصلے سے بھی پورے فوکس کے ساتھ واضح تصویر کشی کر سکتا ہے اور اس کے ساتھ لگائی گئی آپٹیکل فائبر تار کی لمبائی 1.7 میٹر یا 5.6 فٹ بنتی ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ یہ کیمرہ اگر انسانی جسم میں داخل کیا جائے تو خون کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ آگے جاتے ہوئے یہ قریب 1.5 میٹر کے فاصلے تک کسی بھی اندرونی حصے کی تصویریں لے سکتا ہے، جس کے بعد اسے اسی تار اور اسی سرنج کے ذریعے جسم سے باہر نکالا جا سکتا ہے، جس کے ذریعے اسی کسی جسم میں داخل کیا گیا ہو۔ شٹٹ گارٹ یونیورسٹی کے انجینیئرز کے مطابق اس کیمرے کو کسی بھی عام لیکن جراثیم سے پاک سرنج کے ذریعے انسانی دماغ تک کی اندرونی تصویر کشی کے لیے بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ ’’اس کیمرے کے اینڈوسکوپ کے طور پر استعمال سے ہر طرح کا طبی معائنہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس طرح کے کسی معائنے کا کوئی بھی منفی اثر یا تباہ کن نتیجہ نہیں نکلے گا۔‘‘

Sunday, June 26, 2016

شداد کی جنت اُس پر احسناتِ الٰہی اور اس کا کفر

0 comments
شداد کی جنت اُس پر احسناتِ الٰہی اور اس کا کفر

تفسیر فتح القدیر میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملک الموت حضرت عزرائیل علیہ السلام سے پوچھا تمہیں کسی انسان کی روح قبض کرتے وقت کبھی رحم بھی آیا ہے؟ (حالانکہ اللہ عزوجل خوب جانتا ہے)
ملک الموت نے عرض کیا۔ یا اللہ عزوجل ! مجھ کو دو انسانوں کی جان نکالنے میں ملال ہوا تھا ، اگر تیرا حکم نہ ہوتا تو میں ہرگز ہرگز ان کی جان نہ نکالتا۔

ایک اس وقت جب نیلے بیکراں سمندر میں ایک چھوٹا سا جہاز اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ جہاز میں بہت سارے مسافروں کے علاوہ ایک عورت ایسی بھی تھی جس کی ہاں ا بھی اسی وقت بچہ پیدا ہونےوالا تھا۔تیرے حکم سے میں نے پرسکون سمندر میں اچانک ہی لہریں اٹھا دیں اور ساتھ ہی ہوا بھی تیز کردی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہوانے طوفان کا رخ اختیار کیا اور سمندر سے اٹھنے والی لہروں نے سے ٹکراٹکرا کر اسے ہچکولے کھانے پر مجبور کر دیا۔

سبھی مسافر حیران وپریشان سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اچانک ہی موسم نے اپنا مزاج کیسے بدل لیا۔ طوفان بڑھتا جا رہا تھا اور مسافر زندگی کی دعائیں مانگ رہے تھے لیکن تجھ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہوا کے تیز جھکڑوں اور سمندر کی طاقتور موجوں نے جہاز کو توڑ کر ٹکڑوں میں بدل دیا۔ جن مسافروں کو تیرنا آتا تھا۔ وہ تیر کر اپنی جان بچانے کی جی توڑ کوشش کر رہے تھے ۔ لیکن میں نے تیرے حکم سے اکثر کی روحیں قبض کرلیں۔

وہ عورت جس کو بچہ پیدا ہونے والا تھا ، جہاز ڈوبنے کے خوف اور طوفان کی دہشت سے بے ہوش ہو چکی تھی اور جہاز کے ٹوٹے ہوئے ایک تختے پر پڑی ہوئی تھی او ریہ تختہ بے اتھاہ سمندر میں تیز لہروں کے سہارے بہتا چلا جا رہا تھا اور اسی حالت میں عورت کے یہاں بچہ پیدا ہوا اور ولادت کے اگلے ہی لمحے مجھے تیری طرف سے حکم ہوا کہ اس عورت کی روح قبض کرلی جائے۔حکم کی تعمیل پلک جھپکنے سے قبل ہوگئی۔ اس وقت اس عورت کی روح قبض کرتے ہوئے مجھے پر رقت طاری ہوئی تھی۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ جانتے ہو بعد میں اس بچے کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ۔ حضرت عزرائیل علیہ السلام نے فرمایا ۔ میرا رب عزوجل ہی تمام جہانوں کے معاملات سے آگاہ ہے ۔اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا کہ میں نے اس پر اپنی بے پناہ نوازشات فرمائیں۔ اور اس کو دنیا کا بادشاہ بنا یا لیکن بجائے میرا شکر گزار بندہ بننے کے اس نے کفر کی راہ اختیار کی۔
(العیاذ بااللہ)

اس بچے کا واقعہ کچھ یوں منقول ہے۔ کہ وہ بچہ بے سروسامانی کی حالت میں اکیلا ہی تختے پر پڑا رہا اور وہ تختہ کئی دنوں بعد اللہ کے حکم سے کنارے پر آلگا۔ کنارے پر موجود ایک مچھیرے نے جو یہ دل سوز نظارہ دیکھا کہ ایک بچہ تختے پر پڑا کنارے کی طرف آرہا ہے اور ایک عورت اس پر مری پڑی ہے تو اس نے لپک کر بچے کو اٹھا لیا۔ اور میت کو وہی قریب میں زمین کھو د کر دفن کر کے بچے کو اپنے ساتھ گھر لے آیا۔

مچھیرا جب بچہ لیکر گھر پہنچا تو بچے کو دیکھ کر اس کی بیوی بہت خوش ہوئی کیونکہ اس کی یہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔ اور انہوں نے بچے کا نام" شداد "رکھا۔مچھیرا اور اس کی بیوی اس بچے کی لاڈو پیار سے پرورش کرنے لگے یہاں تک کہ وہ سات برس کا ہوگیا اتنی کم عمر میں شداد نہایت ہی ذہین ، عقل مند اور چالاک بھی تھا۔ ایک روز گاؤں کے باہر شداد بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک ہی شور اٹھا کہ بادشاہ کی سواری آرہی ہے۔
یہ سنتے ہی سارے بچے بادشاہ کے ڈر سے بھاگئے لیکن شداد وہی قریب کے ایک ٹیلے میں چھپ کر بادشاہ کی سواری اور شاہی لشکر کا نظارہ دیکھنے لگا۔ یہاں تک کہ تمام لشکر گزر گیا اور بادشاہ کی سواری گزرنے کے بعد کچھ پیادے، گری پڑی ہوئی چیزوں کی خبر گیری کے واسطے لشکر کے پیچھے پیچھے آئے۔ ان پیادوں میں سے ایک پیادے نے راستے میں ایک پوٹلی پڑی ہوئی پائی۔ اس نے جب پوٹلی کو کھولکر دیکھا تو اس میں ایک سرمے دانی تھی۔ وہ پیادے اپنے ساتھیوں سے بولا۔
”میں نے سرمہ پایا ہے.... اگر تمہاری اجازت ہو تو میں اسے اپنی آنکھوں میں لگاؤں کیونکہ میری بنائی بھی کچھ کمزور ہو گئی ہے شاید اس سے کچھ فائدہ ہو جائے۔
اس کے ساتھیوں نے جواب دیا....اول تو راستے میں پڑی ہوئی چیز اٹھانا نہیں چاہئے۔ خیر اب تو نے اٹھا ہی لی ہے تو بغیر آزمائے ہوئے آنکھوں میں ہر گز مت لگانا کہیں فائدے کے اور نقصان نہ ہوجائے۔ پہلے کسی اور کی آنکھوں میں لگا کر دیکھ۔

یہ سنکر پیادے نے ادھر اُدھر دیکھا تو اسے شداد ایک ٹیلے کی اوٹ میں کھڑا نظر آیا۔ پیادے نے اسے بڑے پیار سے بلایا اور کہا۔ آبیٹا ! ہم تیری آنکھوں میں سرمہ لگادیں تاکہ تیری آنکھیں اچھی لگیں۔

شدادنے پیادے سے سرمے دانی اور سلائی لیکر اپنی آنکھوں میں سرمہ لگایا۔ سرمہ لگاتے ہی شداد کے چودہ طبق روشن ہوگئے اور اسے زمین کے اندر چھپے ہوئے تمام خزانے بالکل اسی طرح سے نظر آنے لگے جیسے صاف شفاف پانی میں چیزیں نظر آتی ہیں۔ یہ اللہ کی نوازشات میں سے ایک بہت بڑی نوازش تھی۔ شداد حد سے زیادہ چالاک تو تھا ہی لہٰذا اپنی چالاکی اور عقل مندی سے چلایا.... اے خانہ خراب ظالموں !.... تم نے میری آنکھیں پھوڑ دیں.... ہائے میں اندھا ہو گیا.... یہ میری آنکھ میں کیسا زہر لگوا دیا .... ہائے اب میں بادشاہ کے پاس جاکر فریاد کروں گا اور تم کو سزا دلواؤنگا ۔

پیادوں نے جو یہ سنا تو مارے خوف کے سرمہ وہیں چھوڑ ا، گرتے پڑتے اپنی جان بچانے بھاگ کھڑے ہوئے اورشداد اپنی چالاکی اور پیادوں کی بزدلی پر خوب ہنسا اورسرمہ دانی لیکر اپنے گھر آگیا اور اپنے باپ سے ساراواقعہ بیان کر دیا ۔ مچھیرا اپنے بیٹے کی ہوشیاری سے بہت خوش ہوا اور بولا۔ ”رات کو جب سب لوگ سو جائیں گے تو ہم اپنے بھروسے کے مزدوروں کے ساتھ پھاؤڑے وغیرہ لیکر چلیں گے اور جہاں بھی تجھ کو خزانے نظر آئیں گے ہم وہاں سے کھود کر نکال لیں گے۔اور اپنے گدھوں اور خچروں پر لاد کر خزانہ لے آئیں گے۔

اس طرح شداد نے بہت سا مال و دولت اورجواہر اکٹھے کر لئے تھے۔ اور سب گاؤں والوں کو آئے دن دعوتیں کر کر کے اپنا ہم درداور رفیق بنا لیا تھا۔ کچھ عرصے بعد شداد نے اس گاؤں کے سردار کو قتل کر کے اس کی جگہ پر خود سردار بن بیٹھا۔ ہوتے ہوتے یہ خبر دوسرے حاکموں اور فوجداروں کو پہنچی تو انہوں نے شداد کو سزا دینے کا ارادہ کیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر گزرتے ، شداد نے بھی اپنی ایک فوج تیار کر لی اور ان حاکموں فوجداروں سے مقابلہ کیا اور اپنی ذہانت اور بہادری سے سب حاکموں کو ایک ایک کر کے ہلاک کر دیا اور اس طرح سے بڑھتے بڑھتے شداد تمام روئے زمین کا بادشاہ بن بیٹھا اور سارے جہاں کے حاکم، امراءاور سردار اس کے مطیع وفرمابردار ہوئے۔

شداد نے بے پناہ خزانے جمع کرلئے تھے۔ اور اپنا لشکر اس قدر وسیع اور مضبوط بنا لیا تھا کہ چہ ہر طرف اسی کا حکم چلتا تھا۔ اپنی طاقت اور بہترین حکمت عملی کے ذریعے شداد نے اپنی سلطنت کو کمال عروج بخشا تھا اور روئے زمین کے کسی انسان کو اتنی طاقت نہیں تھی کہ اس کا مقابلہ کر سکے۔ بہ پناہ خزانوں اور مال و دولت ، وسیع و عریض سلطنت ، عظیم الشان لاؤ لشکر اور اپنی ذہانت و طاقت کی وجہ سے شداد اب غرور اور تکبر میں مبتلا ہو گیاتھا۔ اور اس نے دعویٰ خدائی کر ڈالا۔عالموں اور واعظوں نے اس ملعون کو پندو نصیحتیں کیں اور حق تعالیٰ کے خوف اور اس کی عبادت کی طرف رغبت دلانے کی بہت کوششیں کیں لیکن شداد کا کہنا تھا کہ دولت و حکومت جاہ ثروت، عزت وشہرت اور حشمت سب کچھ میرے پاس موجود ہے تو مجھے کیا ضرورت کہ میں کسی خدا کی اطاعت کروں۔عالموں نے سمجھایا کہ یہ سب ملک و دولت فانی ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کرو گے تو وہ تمہیں جنت عطاکرینگے جو اس دنیا سے کروڑہا درجے بہتر ہوگی۔
شداد نے پوچھا کہ اس جنت میں کیا خوبی ہے ؟تو عالموں نے جو کچھ بھی خوبیاں اور تعریفیں جنت الفردوس کی پڑھی اور سنیں تھیں وہ سب اس کے سامنے بیان کر دیں۔ عالموں کی باتیں سنکر شداد نے حقارت سے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ ”مجھے اس جنت کی کوئی پرواہ نہیں اور نہ ہی مجھے وہ جنت چاہئے۔ کیونکہ مجھ میں اتنی طاقت اور قوت ہے کہ میں اس سے بھی اچھی جنت اس دنیا میں بنا سکتا ہوں“۔

اس کے بعد اس نے اپنی جنت بنانے کا حکم نامہ جاری کیا۔ جس کو ابھی آپ نے تفصیل سے پڑھا ۔لیکن اپنی جنت کو دیکھنے سے پہلے ہی اللہ نے اس کو عبرت کا نشان بنادیا۔ اور اس کا تکبر اور کفر اس کے کچھ کام نہ آیا۔

اس وقعہ میں عبرت کے بے شمارپہلو پوشیدہ ہیں۔ایک یہ کہ تکبر سے ہمیشہ بچتے رہنا چاہئے کہ تکبر انسان کو تنزلی کی طرف دھکیل دیتا ہے۔اور متکبر انسان نشان عبرت بن جاتا ہے۔کیونکہ تکبر جہنم میں لے جانے والا کام ہے تکبر صرف اللہ رب العزت کی ذات کے لئے ہی مخصوص ہے۔
دوسرا یہ کہ اللہ عزوجل کی خفیہ تدبیر سے ہمیشہ ڈرتے رہنے چاہیئے کہ نہ جانے ہمارے بارے میں اللہ کی خفیہ تدبیر کیا ہے۔ اللہ تعالی سے ہمیشہ عافیت طلب کرتے رہنا چاہیئے۔
اے اللہ ہم تجھ سے بری موت سے پناہ چاہتے ہیں اور عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ ہمیں اسلام پر زندہ رکھ اور ایمان کی حالت میں موت عطاء فرمانا۔ آمین یا رب العالمین

حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کی علمی فراست

0 comments
حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کی علمی فراست
 امیر المؤمنین حضرتِ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے زمانہ ء خلافت میں حضرتِ سَیِّدُنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کی تو ان سے فرمایا:'' اے حذیفہ ! تم نے صبح کیسے کی ؟'' عرض کی:'' اے امیرالمؤمنین! میں نے اس طرح صبح کی کہ فتنے سے محبت کرتا ہو ں اور حق کو ناپسند کرتا ہوں اور وہ کہتا ہوں جو پیدا نہیں ہوا اور اس بات کی گواہی دیتاہوں جسے میں نے دیکھا نہیں اور بغیر وضو کے صلوٰۃ پڑھتا ہوں اور میرے پاس زمین پرایک ایسی چیز ہے جو اللہ عزوجل کے پاس آسمانوں میں نہیں ہے۔'' تو سیدنا عمر بن خطا ب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات پر شدید غضبناک ہوگئے اور ان کی گرفت کا ارادہ فرمایا مگرپھر ان کی نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صحبت یعنی صحابیت کا خیال آیا تو رُک گئے ۔اسی اثناء میں باب علم حضرتِ سَیِّدُنا علی المر تضی کرم اللہ وجہہ الکریم وہاں سے گزر ے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرہ پر غضب کے آثار ملاحظہ فرمائے تو پوچھا:'' اے امیر المؤمنین! آپ کو کس بات نے غضبناک کیا ہے ؟'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پورا قصہ سنادیاتو حضرتِ سَیِّدُنا علی المر تضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کہا:'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان سے ناراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ان کا قول کہ''میں فتنے سے محبت کرتاہوں ۔'' اللہ عزوجل کے اس فرمان کی تاویل ہے :اِنَّمَاۤ اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ ؕ ترجمہ :تمہارے مال اور تمہارے بچے جانچ (آزمائش ) ہی ہیں ۔(پ28،التغابن:15) اور ان کے اس قول کہ'' میں حق کو ناپسند کرتا ہوں۔'' میں حق سے مراد موت ہے جس سے کسی کو چارہ نہیں اورنہ کوئی اس سے بچ سکتاہے او را ن کے اس قول کہ'' وہ بات کہتا ہوں جو پیدا نہیں کی گئی''سے مراد قرآن پاک ہے کہ یہ قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن مخلوق نہیں اور ان کے ا س قول کہ'' اس بات کی گواہی دیتاہوں جسے میں نے دیکھا نہیں''کا مطلب یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی تصدیق کرتاہوں حالانکہ اسے دیکھا نہیں اور ان کے ا س قول کہ'' بغیر وضو صلوٰۃ پڑھتا ہوں ۔''کامطلب یہ ہے کہ یہ نبی مکرَّم ،رَسُول ِاکرم ،شہنشاہِ بنی آدم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر بغیر وضو کے درودِپاک پڑھتے ہیں ،ان کے ا س قول کہ'' میرے پاس زمین پر ایسی چیز ہے جو اللہ عزوجل کے پاس آسمانوں میں نہیں ہے۔'' سے مراد بیوی اور بچے ہیں کیونکہ اللہ عزوجل کے پاس ان میں سے کوئی چیز نہیں۔ حضرتِ سَیِّدُنا عمر بن خطا ب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :'' اے ابو الحسن ! اللہ آپ پر رحم فرمائے ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو کتنی ذہانت سے نوازا ہے، بے شک آ پ نے میرا ایک بہت بڑا مسئلہ حل کردیاہے ۔'' (کتاب "بحرالدموع" مؤلف : امام ا بن جوزی رحمۃ اللہ علیہ : مترجم: صفحہ 211) نوٹ:۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے راز دان بھی کہلاتے تھے۔ آپ کا لقب سرِ رسول ﷺ بھی ہے۔ نبی اکرم ﷺ آپ سے ایسی باتیں بھی ارشاد فرمایا کرتے تھے جو آپ کسی اور کو ارشاد نہ فرماتے تھے۔آپ کی گفتگو مختصر اور معنی کثیر ہواکرتے تھے۔آپ فتنوں والی کافی احادیث کے راوی بھی ہیں۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ حدیث کے مطابق علم کا دروازہ ہیں ۔ حضرات ابوبکر و عمررضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے دور میں یہ قاضی القضاء (چیف جسٹس) کے منصب پر فائز تھے۔ اور حضرات شیخین اکثر الجھے ہوئے مسائل میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف رجوع فرمایا کرتے تھے۔ (اللہ عزوجل کی اُن سب پر رحمت ہو..ا ور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم

نیک سیرت داماد ایک

0 comments
نیک سیرت داماد ایک
بزرگ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر کے دوران کسی راستے سے گزر رہا تھا ۔میں روزے سے تھا ،میں نے ایک بہتی نہر کو دیکھا تو اس میں غسل کے لئے غوطہ لگا دیا۔ اچانک میں نے پانی کی سطح پر ایک بہی دانہ(ایک پھل) تیرتے ہوئے دیکھا تو اسے افطار کے لئے اٹھالیا ۔جب میں نے اس سے افطاری کرلی توبہت ندامت ہوئی کہ میں نے غیر کے مال سے افطار ی کرلی ۔ جب صبح ہوئی تو میں اس باغ کے دروازے پر پہنچ گیا جہاں سے نہر نکل رہی تھی ۔میں نے دروازے پر دستک دی تو ایک عمر رسید ہ بزرگ باہر نکلے میں نے ان سے کہا :''کل آپ کے اس باغ سے ایک بہی دانہ دریامیں بہتا ہواگیاتھا میں نے اسے اٹھا کر کھالیا اور اب میں اس پر بہت نادم ہوں مجھے امید ہے کہ آپ اس کا کوئی حل نکالیں گے ۔'' وہ بزرگ بولے:'' میں توخود اس باغ میں مزدو ر ہوں، مجھے یہاں کام کرتے ہوئے چالیس سال ہوگئے مگر میں نے اس کا ایک پھل بھی نہیں کھایا اور اس باغ میں میرا کوئی حصہ نہیں۔'' میں نے پوچھا : ''پھریہ باغ کس کا ہے ؟''انہوں نے کہا کہ ''یہ باغ دوبھائیوں کا ہے جوفلاں جگہ رہتے ہیں ۔'' میں اس جگہ پہنچ گیا،وہاں مجھے ایک ہی بھائی مل سکا۔ میں نے اسے سارا ماجرا بتایاتو وہ کہنے لگا:'' نصف باغ تو میرا ہے لہذا میں آدھا حصہ معا ف کرتا ہوں۔'' میں نے پوچھا : ''میں تمہارے بھائی کو کہا ں ڈھونڈوں؟''اس نے کہا :'' فلاں فلاں جگہ چلے جاؤ۔'' تو میں اس طر ف چل دیا اور اسے جاکر ساراقصہ سنایا تو اس نے کہا کہ'' خدا عزوجل کی قسم ! میں ایک شر ط پر اپنا حق معا ف کروں گا۔'' میں نے پوچھا کہ'' وہ شر ط کیا ہے؟''وہ بولا کہ'' میں تم سے اپنی بیٹی کا نکاح کروں گا اور تمہیں سودیناردوں گا ۔'' میں نے کہا :'' افسوس کہ مجھے اس کی بالکل حاجت نہیں کیا آپ نہیں جانتے کہ اس ایک پھل کی وجہ سے مجھے کتنی پریشانی ہوئی ہے لہذا میرے لئے کوئی اورحل تلاش کریں ۔'' انہوں نے کہا کہ'' خداعزوجل کی قسم !میں اس شر ط کے بغیر ایسا نہیں کروں گا۔'' جب میں نے ان کا اصرار دیکھا تو ان کا مطالبہ تسلیم کرلیا اور کہا: ''ٹھیک ہے۔'' انہوں نے مجھے سو دینا ر دئیے اور کہا:'' اس میں سے جتنے چاہو میری بیٹی کے مہر کے طو ر پر دے دو۔'' میں نے سارے دینارواپس کردئیے۔مگر انہوں نے کہا کہ'' سارے نہیں کچھ دینار دے دو۔'' پھرجب انہوں نے اپنی بیٹی کا نکاح اس آنے والے شخص سے کردیا تو لوگوں نے اسے اس بات پر ملامت کی کہ'' جب ارباب ِاختیار اور بڑے لوگوں نے تمہاری بیٹی کے لئے پیغام بھیجا تھا تو تم نے انہیں اپنی بیٹی نہیں دی ،تو اس فقیر کو کیوں دے دی جس کے پاس بالکل مال نہیں ہے ؟''تو انہوں نے لوگو ں سے کہا: ''اے لوگو !میں نے پرہیز گاری اور تقویٰ کو ترجیح دی ہے کیونکہ یہ شخص اللہ عزوجل کے نیک بندوں میں سے ہے۔'' (کتاب بحرالدموع مؤلف : امام ا بن جوزی رحمۃ اللہ علیہ : مترجم صفحہ 113) جنہوں نے اپنی بیٹی نکاح میں دی تھی ان کا نام حضرت عبد اللہ صومعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تھا جو کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نانا جان تھے۔ اور ان کے بننے والے داماد کا نام حضرت ابو صالح موسی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تھا ۔ جو کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد گرامی تھے۔

دماغ کے بارے کچھ غلط فہمیاں

0 comments
دماغ کے بارے کچھ غلط فہمیاں آج بھی عوام الناس میں انسانی دماغ کے بارے بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ آئیے ایسی ہی کچھ غلط فہمیوں کے متعلق اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو بتاتا ہوں۔ جیسے اکثر کہا جاتا ہے کہ ایک انسان دماغ کا صرف 10فیصد حصہ استعمال کرسکتا ہے، لیکن کچھ عرصہ پہلے ماہرین کی اکثریت نے اس نظریہ کو مسترد کر دیا۔ یونیورسٹی آف کیمبرج میں پروفیسر آف کلینیکل نیوروسائیکالوجی باربرا ساکیاں کا کہنا ہے کہ ” دماغ کے 10فیصد کام کرنے کا نظریہ غلط ہے، حقیقت میں ہمارا پورا دماغ ہر وقت کام کرتا ہے۔ جسم میں خون کی گردش، سانس لینا، کھانا ہضم کرنے سمیت تمام افعال دماغ کے کام کرنے کی وجہ سے ہی پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ بڑا دماغ، بڑا کام: معروف برطانوی نیورولوجسٹ ووجٹک راکووکز کا کہنا ہے کہ دماغ کے سائز سے کسی کے قابل یا ناقابل ہونے کی تصدیق نہیں کی جاسکتی، کیوں کہ آئن سٹائن کا دماغ عام آدمی کی نسبت کم سائز کا تھا، لیکن ہم میں سے کتنے ہیں، جو آئن سٹائن سے زیادہ سمجھدار ہیں۔ اسی طرح اگر کسی شخص کا سر بڑا ہے تو اس کا دماغ بڑا ہونا بھی ضروری نہیں، کیوں کہ اس کا ذہانت سے کوئی تعلق نہیں۔ لہذا ہر چیز میں توازن ہونا چاہیے۔ ذہنی تربیت: 2010ءمیں بی بی سی کے تحت ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ایک عام انسان کو ذہنی تربیت چالاک نہیں بنا سکتی۔ 18سے 60سال کی عمر کے 86 سو ایسے افراد کو اس تحقیق کا حصہ بنایا گیا، جو نہ صرف مختلف گیمز کھیلتے تھے بلکہ ذہنی تربیت بھی حاصل کر چکے تھے۔ ان کے علاوہ ایسے 27 سو افراد بھی اس تحقیق میں شامل تھے، جو انٹرنیٹ استعمال ضرور کرتے تھے لیکن انہوں نے ذہنی تربیت حاصل نہیں کی۔ محققین کا کہنا ہے کہ 6 ہفتوں بعد جب نتائج سامنے آئے تو جن لوگوں نے یاداشت کی بہتری کے لئے باقاعدہ ذہنی تربیت حاصل کی وہ تربیت حاصل نہ کرنے والوں سے کسی طور بھی بہتر نہ پائے گئے۔ درد کی صورت میں سر پر ہاتھ یا مکا مارنا: ڈاکٹر ووجٹک راکووکز کہتے ہیں کہ درد کی صورت میں سر پر ہاتھ یا مکا مارنا ذہنی خلیوں کے لئے نقصان کا باعث نہیں،کیوں کہ دماغ نہایت مضبوط اور اس کے اوپر کھوپڑی کا غلاف چڑھا ہوتا ہے۔ لیکن ہاتھ یا مکے کے بجائے کسی سخت چیز سے سر پر ضرب لگانے سے بہرحال ذہنی نقصان ہو سکتا ہے۔ دوران حمل یاداشت کی کمزوری: عام طور پر کہا جاتا کہ دوران حمل خواتین کی یاداشت کمزور ہو جاتی ہے لیکن اس کے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں، کیوں کہ حمل کے باوجود ذہنی ساخت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دائیں یا بائیں طرف دماغ: سالہا سال یہ بات عام ہے کہ بائیں اور دائیں ہاتھ سے لکھنے والے افراد کا دماغ بھی اسی طرف ہوتا ہے لیکن یہ نظریہ بالکل غلط ہے، کیوں کہ 2013ءمیں یونیورسٹی آف یوٹاہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق یہ نظریہ بالکل غلط ہے کہ دائیں یا بائیں ہاتھ کا استعمال دماغ کا اسی طرف (سائیڈ) ہونے سے منسلک ہوتا ہے، اس تحقیق میں ایک ہزار افراد کو شامل کیا گیا، جن میں کچھ دائیں اور باقی بائیں ہاتھ سے لکھنے والے تھے لیکن ان کی دماغ کی سائیڈ اس جانب نہیں تھی۔ دماغ کی طرف خون کی گردش: سخت ورزش کرنے کے بعد یہ عام نظریہ ہے کہ الٹا لٹک کر دماغ کو خون فراہم کیا جائے، حالاں کہ یہ نظریہ بالکل غلط ہے، کیوں کہ دماغ کی طرف خون کا بہاؤ ڈپریشن بڑھا سکتا ہے۔ ہاں نماز کے سجدے والی معتدل حالت میں انسانی دماغ پر اچھے اثرات مرتب ضرور ہوتے ہیں۔ مرد و خواتین کے دماغ میں فرق: مرد و خواتین کے دماغ چھوٹا یا بڑا ہونے کی توہمات میں کوئی صداقت نہیں، کیوں کہ اگر آپ مرد اور عورت کا دماغ نکال کر برابر رکھ لیں تو آپ اس میں کوئی فرق نہیں کر سکتے۔ ان کے علاوہ ماہرین نے دماغ کی سرمئی رنگت کی وجہ سے کمزوری، پیٹ میں پلنے والے بچے کو میوزک سنانا اور دماغ کو باقاعدہ خوراک دینے جیسے توہمات کی نفی بھی کی ہے۔(ڈیلی پاکستان سے اقتباس) تو کیا آپ بھی ان میں سے کسی غلط فہمی میں مبتلا تھے؟؟

حجرِ اسود تاریخ کے آئینے میں

0 comments
حجرِ اسود تاریخ کے آئینے میں
 حجر اسود عربی زبان کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ حجر عربی میں پتھر کو کہتے ہیں اور اسود سیاہ اور کالے رنگ کے لیے بولا جاتا ہے۔ حجر اسود وہ سیاہ پتھر ہے جو کعبہ کے جنوب مشرقی دیوار میں نصب ہے۔ اس وقت یہ تین بڑے اور مختلف شکلوں کے کئی چھوٹے ٹکڑوں پرمشتمل ہے۔ یہ ٹکڑے اندازاً ڈھائی فٹ قطر کے دائرے میں جڑے ہوئے ہیں جن کے گرد چاندی کا گول چکر بنا ہوا ہے۔ جو مسلمان حج یاعمرہ کرنےجاتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ طواف کرتے ہوئے ہر بار حجراسود کو بوسہ دیں۔ اگر ہجوم زیادہ ہو تو ہاتھ کے اشارے سے بھی بوسہ دیا جاسکتا ہے۔ جس کو استلام کہتے ہیں۔ تاریخ وحوادث تاریخ میں کم ازکم چھ واقعات ملتے ہیں جب حجر اسود کو چوری کیا گیا یہ اس کو توڑنے کی کوشش کی گئی۔ہوسکتا اس کے حوادث کی تعداد اس بھی زیادہ ہو۔اسلامی روایات کے مطابق جب حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے۔ تو حضرت جبرائیل نے یہ پتھر جنت سے لا کر دیا جسے حضرت ابراہیم نے اپنے ہاتھوں سے دیوار کعبہ میں نصب کیا۔ 1۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے قبیلہ بنی جرہم کے متعلق ملتا ہے کہ ان لوگوں نے حجر اسود کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی۔تاریخ میں ہے کہ جب بنو بکر بن عبد مناہ نے قبلہ ” جرہم ” کو مکّہ سے نکلنے پر مجبور کیا تو انہوں نے مکّہ سے بے دخل ہوتے ہوئےکعبہ میں رکھے دو سونے کے بنے ہرنوں کے ساتھہ ” حجر اسود ” کو کعبہ کی دیوار سے نکال کر زم زم کے کنویں میں دفن کر دیا اور مجبورا” یمن کی جانب کوچ کر گئے– الله تعالی کی حکمت دیکھیے کہ یہ پتھر زیادہ عرصے زم زم کے کنویں میں نہیں رہا – جس وقت بنو جرہم کے لوگ حجر اسود کو زم زم کے کنویں میں چھپا رہے تھے ایک عورت نے انھیں ایسا کرتے دیکھ لیا تھا – اس عورت کی نشان دہی پر حجر اسود کو زم زم کےکنویں سے بازیاب کرا لیا گیا ۔ 2 – ابو طاہر نامی شخص کی قیادت میں ” قرا ما تین "نے 317 ہجری میں مکّہ مکرمہ کا محاصرہ کرلیا اور مسجد الحرام جیسے مقدس مقام پر تقریبا” سات سو انسانوں کو قتل کیا اور زم زم کے کنویں کو اور مسجد الحرام کے احاطے کو انسانی لاشوں اور خون سے بھر دیا – اسکے بعد اسنے مکّہ کے لوگوں کی قیمتی اشیا کو اور کعبہ مشرفہ میں رکھے جواہرات کو غصب کر لیا – اسنے کعبہ کے غلاف کو چیر پھاڑ کر کے اپنے پیروکاروں میں تقسیم کر دیا – کعبہ مشرفہ کے دروازے اور اسکے سنہری پر نالے کو اکھاڑ ڈالا – اور پھر بات یہیں ختم نہیں ہوئی اور 7 ذوالحجہ317 ہجری کو ابو طاہر نے حجر اسود کو کعبہ مشرفہ کی دیوار سے الگ کردیا اور اس کی جگہ کو خالی چھوڑ دیا اور اسکو موجودہ دور میں جو علاقہ ” بحرین ” کہلاتا ہے وہاں منتقل کر دیا – یہ حجر اسود کا ایک نہات تکلیف دہ دور تھا – تقریبا 22 سال حجر اسود کعبہ شریف کی دیوار سے جدا رہا – اس دور میں کعبہ مشرفہ کا طواف کرنے والے صرف اس کی خالی جگہ کو چومتے یا اس کا استلام کر تے تھے – پھر الله سبحان و تعالی کی مشیت دیکھیے کہ 22 سال بعد 10 ذوالحجہ 339 ہجری کو” سنبر بن حسن ” جس کا تعلق بھی قراماتین قبیلے سے ہی تھا ، اس نے حجر اسود کو آزاد کرا یا اور واپس حجر اسود کے اصل مقام پر پیوست کروا دیا – اس وقت ایک مسلہ یہ ضرور درپیش آیا کہ کیا واقعی یہ اصل حجر اسود ہی ہے یا نہیں تو اس وقت مسلمانوں کے ایک دانشور نے کہا وہ اس کو ٹیسٹ کر کے بتا دیگا کہ یہی اصل حجر اسود ہے یا نہیں کیوں کہ اس نے اس کے بارے میں احادیث کا مطا لعہ کر رکھا ہے .- اس نے حجر اسود پر آگ لگائی تو حجر اسود کو آگ نہیں لگی اور نہ ہی وہ گرم ہوا – پھر اسنے اسکو پانی میں ڈبویا تو یہ پتھر ہونے کے باوجود اپنی خصلت کے بر خلاف پانی میں ڈوبا نہیں بلکہ سطح آب پر ہی تیرتا رہا – اس سے ظاہر ہو گیا کہ یہ اصل جنت کا پتھر ہی ہے کیوں کہ جنت کا پتھر کا آگ سے اور غرق یابی سے بھلا کیا تعلق ہو سکتا ہے – 3 – سن 363 ہجری میں ایک رومی شخص نے اپنے کلہاڑے سے حجر اسود پر کاری ضرب لگائی جس سے اس پر چٹخنے کا ایک واضح نشان پڑ گیا – اس نے دوسری شدید ضرب لگانے کے لیے جیسے ہی اپنے کلہاڑے کو اٹھایا . الله سبحان و تعالی کی مدد آن پہنچی اور قریب ہی موجود ایک یمنی شخص نے جو اسکی یہ گھناونی کاروائی دیکھ رہا تھا ، چشم زدن میں اس نے اسے قتل کر ڈالا اور اسکی حجر اسود پر دوسری ضرب لگانے کی خواہش دل ہی میں رہ گئی – 4 – سن 413 ہجری میں فاطمید نے اپنے 6 پیروکاروں کو مکّہ بھیجا جس میں سے ایک ” الحاکم العبیدی ” تھا جو ایک مضبوط جسم کا مالک سنہرے بالوں والا طویل قد و قامت والا انسان تھا – وہ اپنے ساتھہ ایک تلوار اور ایک لوہے کی سلاخ لایا تھا – اپنے ساتھیوں کے اکسانے پر اسنے دیوانگی کے عالم میں تابڑ توڑ تین ضربیں ”حجر اسود ” پر لگا ڈالیں جس سے اسکی کرچیاں اڑ گئیں – وہ ہزیانی کیفیت میں اول فول بکتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ ( معاذ الله ) جب تک وہ اسے پورا نہ اکھاڑ پھینکے گا جب تک سکوں سے نہ بیٹھے گا – بس اس موقع پر ایک مرتبہ پھر الله سبحان و تعالی کی مدد آن پہنچی اور گھڑ سواروں کے ایک دستے نے ان سب افراد کو گھیر لیا اور ان سب کو پکڑ کر قتل کردیا گیا اور بعد میں ان کی لاشوں کو بھی جلا دیا گیا۔ 5 – اسی طرح کا ایک واقعہ سن 990 ہجری میں بھی ہوا جب ایک غیر عرب باشندہ اپنے ہتھیا ر کے ساتھ مطاف میں آیا اور اسنے حجر اسود کو ایک ضرب لگا دی – اس وقت کا ایک شہزادہ ” شہزادہ نصیر ” مطاف میں موجود تھا جس نے اسے فوری طور سے موت کے گھاٹ اتار دیا – 6 – سن 1351 ہجری کے محرم کے مہینے میں میں ایک افغانی باشندہ مطاف میں آیا اور اسنے حجرہ اسود کا ایک ٹکڑا توڑ کر باہر نکال دیا اور کعبہ کے غلاف کا ایک ٹکڑا چوری کر ڈالا -ا س نے کعبہ کی سیڑھیوں کو بھی نقصان پہنچایا – کعبہ مشرفہ کے گرد کھڑے محافظوں نے اسے پکڑ لیا – اور پھر اسے مناسب کارروائی کے بعد موت کی سزا دے دی گئی – اسکے بعد 28 ربیع الاول سن 1351 ہجری کو شاہ عبد العزیز نے اس پتھر کو دوبارہ کعبہ مشرفہ کی دیوار میں نصب کیا جو اس فاطر العقل افغانی نے نکال باہر کیا تھا – حجر اسود اس وقت ایک مکمل پتھر کی صورت میں نہیں ہے جیسا کہ یہ جنت سے اتارا گیا تھا بلکہ حوا د ث زمانہ نے اس متبرک پتھر کو جس کو بوسہ دینے کے لیے اہل ایمان کے دل ہر وقت بےچین رہتے ہیں آٹھ ٹکڑوں میں تبدیل کردیا ہے ۔ 606ء میں جب رسول اللہ ﷺ کی عمر35 سال تھی ، سیلاب نے کعبے کی عمارت کو سخت نقصان پہنچایا اور قریش نے اس کی دوبارہ تعمیر کی لیکن جب حجر اسود رکھنے کا مسئلہ آیا تو قبائل میں جھگڑا ہوگیا۔ ہر قبیلے کی یہ خواہش تھی کہ یہ سعادت اسے ہی نصیب ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے اس جھگڑے کو طے کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ حجر اسود کو ایک چادر میں رکھا اور تمام سرداران قبائل سے کہا کہ وہ چادر کے کونے پکڑ کر اٹھائیں۔ چنانچہ سب نے مل کر چادر کو اٹھایا اور جب چادر اس مقام پر پہنچی جہاں اس کو رکھا جانا تھا تو آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کو دیوار کعبہ میں نصب کر دیا۔ سب پہلے عبداللہ بن زبیر نے حجر اسود پر چاندی چڑھوائی ۔ 1268ء میں سلطان عبدالحمید نے حجراسود کو سونے میں مڑھوایا ۔ 1281ء میں سلطان عبدالعزیز نے اسے چاندی سے مڑھوایا۔ 696ء میں جب حضرت عبداللہ بن زبیر خانہ کعبہ میں پناہ گزین ہوئے تو حجاج بن یوسف کی فوج نے کعبے پر منجنیقوں سے پتھر برسائے اور پھر آگ لگا دی۔ جس سے حجر اسود کے تین ٹکڑے ہو گئے۔ عباسی خلیفہ الراضی باللہ کے عہد میں ایک قرامطی سردار ابوطاہر حجر اسود اٹھا کر لے گیا اور کافی عرصے بعد اس واپس کیا۔ فضائل حجر اسود با زبان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا : بلاشبہ حجر اسود اورمقام ابراھیم جنت کے یاقوتوں میں سے یاقوت ہيں اللہ تعالٰی نے ان کے نوراورروشنی کوختم کردیا ہے اگراللہ تعالٰی اس روشنی کوختم نہ کرتا تو مشرق ومغرب کا درمیانی حصہ روشن ہوجاتا ۔ سنن ترمذی حدیث نمبر ( 804 ) ۔ ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حجراسود جنت سے نازل ہوا ۔ سنن ترمذي حدیث نمبر ( 877 ) سنن نسائ حدیث نمبر ( 2935 ) ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حجراسود جنت سے آیا تودودھ سے بھی زیادہ سفید تھا اوراسے بنو آدم کے گناہوں نے سیاہ کردیاہے ۔ سنن ترمذي حدیث نمبر ( 877 ) ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں :نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کے بارے میں فرمایا : اللہ کی قسم اللہ تعالٰی اسے قیامت کولاۓ گا تواس کی دوآنکھیں ہونگی جن سے یہ دیکھے اورزبان ہوگی ۔جس سے بولے اور ہراس شخص کی گواہی دے گا جس نے اس کا حقیقی استلام کیا ۔ سنن ترمذي حدیث نمبر ( 961 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2944 ) جابربن عبداللہ رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ تشریف لاۓ توحجر اسود کا استلام کیا اورپھراس کے دائيں جانب چل پڑے اورتین چکروں میں رمل کیا اورباقی چار میں آرام سے چلے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1218 ) ۔ حجر اسود کا استلام یہ ہے کہ اسے ہاتھ سے چھوا جاۓ ۔ اگر بھیڑ زیادہ ہوتو ہاتھ کے اشارہ بھی کفایت کرے گا۔ حضرت عمر رضي اللہ تعالٰی عنہ حجراسود کے پاس تشریف لاۓ اوراسے بوسہ دے کرکہنے لگے : مجھے یہ علم ہے کہ توایک پتھر ہے نہ تونفع دے سکتا اورنہ ہی نقصان پہنچا سکتا ہے ، اگرمیں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے ہوۓ نہ دیکھا ہوتا تومیں بھی تجھے نہ چومتا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1250 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1720 ) ۔ نافع رحمہ اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابن عمررضي اللہ تعالٰی عنہما نے حجراسود کا استلام کیا اورپھر اپنے ہاتھ کوچوما ، اورفرمانے لگے میں نے جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ کرتے ہوۓ دیکھا ہے میں نے اسے نہیں چھوڑا ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1268 ) ۔ ابوطفیل رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ بیت اللہ کا طواف کررہے تھے اورحجر اسود کا چھڑی کے ساتھ استلام کرکے چھڑی کوچومتے تھے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1275 ) ۔ ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اونٹ پرطواف کیا توجب بھی حجر اسود کے پاس آتے تواشارہ کرتے اوراللہ اکبر کہتے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4987 ) ۔ ابن عمررضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان کا چھونا گناہوں کا کفارہ ہے ۔ سنن ترمذی حدیث نمبر ( 959 ) امام ترمذی نے اسے حسن اورامام حاکم نے ( 1 / 664 ) صحیح قرار دیا اور امام ذھبی نے اس کی موافقت کی ہے

دو قابلِ رشک عورتیں اور دو قابلِ عبرت عوتیں

0 comments
دو قابلِ رشک عورتیں اور دو قابلِ عبرت عوتیں
 یہاں پر ان چار عورتوں کی معلومات اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں سے شئیر کرتے ہیں جن کا تذکرہ اللہ تعالی نے قرآن پاک کی سورہ تحریم کی تین آیات 10 تا 12 میں کیا ہے۔ وَاہِلہ:۔ یہ حضرت نوح علیہ السلام کی بیوی تھی۔ اس کو ایک نبی برحق کی زوجیت کا شرف حاصل ہوا اور برسوں یہ اللہ تعالیٰ کے نبی علیہ السلام کی صحبت سے سرفراز رہی مگر اس کی بدنصیبی قابل عبرت ہے کہ اس کو ایمان نصیب نہیں ہوا بلکہ یہ حضرت نوح علیہ السلام کی دشمنی اور توہین و بے ادبی کے سبب سے بے ایمان ہو کر مرگئی اور جہنم میں داخل ہوئی۔ یہ ہمیشہ اپنی قوم میں جھوٹا پروپیگنڈہ کرتی رہتی تھی کہ حضرت نوح علیہ السلام مجنون اور پاگل ہیں، لہٰذا ان کی کوئی بات نہ مانو۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی بیوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے جباروں کو ایمان لانے والوں کی خبریں پہنچایا کرتی تھی۔ جس سے اس کی قوم کے افراد ایمان لانے والوں پر ظلم کرتے تھے وَاعِلہ:۔ یہ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی تھی۔ یہ بھی اللہ کے ایک جلیل القدر نبی علیہ السلام کی زوجیت و صحبت سے برسوں سرفراز رہی مگر اس کے سر پر بدنصیبی کا ایسا شیطان سوار تھا کہ سچے دل سے کبھی ایمان نہیں لائی بلکہ عمر بھر منافقہ رہی اور اپنے نفاق کو چھپاتی رہی۔ جب قوم ِ لوط پر عذاب آیا اور پتھروں کی بارش ہونے لگی، اُس وقت حضرت لوط علیہ السلام اپنے گھر والوں اور مومنین کو ساتھ لے کر بستی سے باہر چلے گئے تھے۔ ''واعلہ'' بھی آپ کے ساتھ تھی آپ نے فرما دیا تھا کہ کوئی شخص بستی کی طرف نہ دیکھے ورنہ وہ بھی عذاب میں مبتلا ہوجائے گا۔ چنانچہ آپ کے ساتھ والوں میں سے کسی نے بھی بستی کی طرف نہیں دیکھا اور سب عذاب سے محفوظ رہے لیکن واعلہ چونکہ منافق تھی اُس نے حضرت لوط علیہ السلام کے فرمان کو ٹھکرا کر بستی کی طرف دیکھ لیا اور شہر کو الٹ پلٹ ہوتے دیکھ کر چلانے لگی کہ''یَاقَوَمَاہ،''ہائے رے میری قوم، یہ زبان سے نکلتے ہی ناگہاں عذاب کا ایک پتھر اس کو بھی لگا اور یہ بھی ہلاک ہو کر جہنم رسید ہو گئی۔ حضرت آسیہ:۔ آسیہ بنت مزاحم رضی اللہ عنہا یہ فرعون کی بیوی تھیں۔ فرعون تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بدترین دشمن تھا لیکن حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا نے جب جادوگروں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں مغلوب ہوتے دیکھ لیا تو فوراً اُن کے دل میں ایمان کا نور چمک اُٹھا اور وہ ایمان لے آئیں۔ جب فرعون کو خبر ہوئی تو اس ظالم نے ان پر بڑے بڑے عذاب کئے، بہت زیادہ زدو کوب کے بعد چومیخا کردیا یعنی چار کھونٹیاں گاڑ کر حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا کے چاروں ہاتھوں پیروں میں لوہے کی میخیں ٹھونک کر چاروں کھونٹوں میں اس طرح جکڑ دیا کہ وہ ہل بھی نہیں سکتی تھیں اور بھاری پتھر سینہ پر رکھ کر دھوپ کی تپش میں ڈال دیا اور دانہ پانی بند کردیا لیکن ان مصائب و شدائد کے باوجود وہ اپنے ایمان پر قائم و دائم رہیں اور فرعون کے کفر سے خدا عزوجل کی پناہ اور جنت کی دعائیں مانگتی رہیں اور اسی حالت میں اُن کا خاتمہ بالخیر ہو گیا اور وہ جنت میں داخل ہو گئیں۔ ابن کیسان کا قول ہے کہ وہ زندہ ہی اُٹھا کر جنت میں پہنچا دی گئیں۔ واللہ اعلم روایت میں ہے کہ آپ جنت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں شامل ہوں گی۔ حضرت مریم:۔ مریم بنت عمران رضی اللہ عنہا، یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہیں۔ چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے شکم سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے اس لئے ان کی قوم نے طعن اور بدگوئیوں سے ان کو بڑی بڑی ایذائیں پہنچائیں مگر یہ صابر رہ کر اتنے بڑے بڑے مراتب و درجات سے سرفراز ہوئیں کہ خداوند ِ قدوس نے قرآن مجید میں ان کی مدح و ثنا کا بار بار خطبہ ارشاد فرمایا ۔ حضرت مریم صلواۃ علیہا کا تفصیل سے تذکرہ ایک الگ پوسٹ "مریم بنت عمران" میں ہوچکا ہے۔ ان چاروں عورتوں کے بارے میں قرآن مجید نے سورہ ءتحریم میں فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے:۔ ''اللہ تعالیٰ کافروں کی مثال دیتا ہے۔ جیسے حضرت نوح (علیہ السلام)کی عورت (واہلہ)اور حضرت لوط (علیہ السلام)کی عورت (واعلہ)یہ دونوں ہمارے دو مقرب بندوں کے نکاح میں تھیں۔ پھر ان دونوں نے ان دونوں سے دغا کیا تو وہ دونوں پیغمبران، ان دونوں عورتوں کے کچھ کام نہ آئے اور ان دونوں عورتوں کے بارے میں خدا کا یہ فرمان ہو گیا کہ تم دونوں جہنمی عورتوں کے ساتھ جہنم میں داخل ہوجاؤ۔ اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مثال بیان فرماتا ہے۔ فرعون کی بیوی (آسیہ)جب انہوں نے عرض کی اے میرے رب! میرے لئے اپنے پاس جنت میں گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے کام سے نجات دے اور مجھے ظالم لوگوں سے نجات بخش اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی پارسائی کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی طرف کی روح پھونکی اور اس نے اپنے رب کی باتوں اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور فرمانبرداروں میں سے ہوئی۔ (پ۲۸، التحریم:۱۰ ۔ ۱۲) درسِ ہدایت:۔ واہلہ اور واعلہ دونوں نبی کی بیویاں ہو کر کفر و نفاق میں گرفتار ہو کر جہنم رسید ہوئیں اور فرعون جیسے کافر کی بیوی حضرت ''آسیہ''ایمان کامل کی دولت پاکر جنت میں داخل ہوئیں اور حضرت آسیہ حق ظاہر ہوجانے کے بعد اس طرح ایمان لائیں کہ فرعون کے سب آرام و راحت کو ٹھکر ادیا اور بے پناہ تکلیفوں اور ایذاؤں کے باوجود اپنے ایمان پر قائم رہیں۔

Saturday, June 25, 2016

نور الدین زنگی

0 comments
نور الدین زنگی نور الدین زنگی سلطنت کے بانی عماد الدین زنگی کا بیٹا تھا جس نے تاریخ میں بڑا نام پیدا کیا۔ نور الدین فروری 1118ء میں پیدا ہوا اور 1146ء سے 1174ء تک 28سال حکومت کی۔ فتوحات و کارنامے اس نے عیسائیوں سے بیت المقدس واپس لینے کے لیے پہلے ایک مضبوط حکومت قائم کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے گرد و نواح کی چھوٹی چھوٹی مسلمان حکومتوں کو ختم کرکے ان کو اپنی مملکت میں شامل کرلیا۔ شروع میں نورالدین کا دارالحکومت حلب تھا۔ 549ھ میں اس نے دمشق پر قبضہ کرکے اسے دارالحکومت قرار دیا۔ اس نے صلیبی ریاست انطاکیہ پر حملے کرکے کئی قلعوں پر قبضہ کرلیا اور بعد ازاں ریاست ایڈیسا پر مسلمانوں کا قبضہ ختم کرنے کے لیے عیسائیوں کی کوشش کو بھی ناکام بنا دیا۔ دوسری صلیبی جنگ کے دوران دمشق پر قبضہ کرنے کی کوششیں بھی سیف الدین غازی اور معین الدین کی مدد سے ناکام بنا دیں اور بیت المقدس سے عیسائیوں کو نکالنے کی راہ ہموار کردی۔ اموی مسجد، دمشق دوسری صلیبی جنگ میں فتح کی بدولت ہی مسلمان تیسری صلیبی جنگ میں فتحیاب ہوکر بیت المقدس واپس لینے میں کامیاب ہوئے۔ اس زمانے میں مصر میں فاطمی حکومت قائم تھی لیکن اب وہ بالکل کمزور ہوگئی تھی اور مصر چونکہ فلسطین سے ملا ہوا تھا اس لیے عیسائی اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ یہ دیکھ کر نورالدین نے ایک فوج بھیج کر 564ء میں مصر پر بھی قبضہ کرلیا اور فاطمی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ انتقال مصر پر قبضہ کرنے کے بعد نورالدین نے بیت المقدس پر حملہ کرنے کی تیاریاں شروع کردیں۔ بیت المقدس کی مسجد عمر میں رکھنے کے لیے اس نے اعلیٰ درجے کا منبر تیار کروایا۔ اس کی خواہش تھی کہ فتح بیت المقدس کے بعد وہ اس منبر کو اپنے ہاتھوں سے رکھے گا لیکن خدا کو یہ منظور نہ تھا۔ نورالدین ابھی حملے کی تیاریاں ہی کررہا تھا کہ زنگی کو حشیشین نے زہر دیا۔(یہ وہ ہی حشیشین ہیں جن کا تذکرہ حسن بن صباح کی پوسٹ میں ہواتھا) اس زہر سے ان کے گلے میں سوزش پیدا هو گئی جو کے ان کی موت کا باعث بنی 15 مئی 1174ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔ انتقال کے وقت نورالدین کی عمر 58سال تھی۔ کردار نور الدین بہادری میں اپنے باپ کی طرح تھا۔ ایک مرتبہ جنگ میں اسے دشمنوں کی صف میں بار بار گھستے دیکھ کر اس کے ایک مصاحب قطب الدین نے کہا : ”اے ہمارے بادشاہ! اپنے آپ کو امتحان میں نہ ڈالئے اگر آپ مارے گئے تو دشمن اس ملک کو فتح کرلیں گے اور مسلمانوں کی حالت تباہ ہوجائے گی“۔ نورالدین نے یہ بات سنی تو اس پر بہت ناراض ہوا اور کہا : ”قطب الدین! زبان کو روکو، تم اللہ کے حضور گستاخی کررہے ہو۔ مجھ سے پہلے اس دین اور ملک کا محافظ اللہ کے سوا کون تھا؟“۔ نور الدین نے شریعت کی خود پابندی کی اور اپنے ساتھیوں کو بھی پابند بنایا۔ انہیں دیکھ کر دوسروں نے تقلید کی جس کی وجہ سے عوام میں اسلام پر عمل کرنے جذبہ پیدا ہوگیا اور لوگ خلاف شرع کاموں کے ذکر سے بھی شرمانے لگی۔ رفاہ عامہ اور فلاحی کام نور الدین صرف ایک فاتح نہیں تھا بلکہ ایک شفیق حکمران اور علم پرور بادشاہ تھا۔ اس نے سلطنت میں مدرسوں اور ہسپتالوں کا جال بچھا دیا۔ اس کے انصاف کے قصے دور دور تک مشہور تھی۔ وہ بڑی ذاتی زندگی گزارتا تھا، بیت المال کا روپیہ کبھی ذاتی خرچ میں نہیں لایا۔ مال غنیمت سے اس نے چند دکانیں خرید لیں تھیں جن کے کرائے سے وہ اپنا خرچ پورا کرتا تھا۔ اس نے اپنے لیے بڑے بڑے محل تعمیر نہیں کئے بلکہ بیت المال کا روپیہ مدرسوں، شفاخانوں اور مسافر خانوں کے قائم کرنے اور رفاہ عامہ کے دیگر کاموں میں صرف کرتا۔ دمشق میں اس نے ایک شاندار شفاخانہ قائم کیا تھا جس کی دنیا میں مثال نہ تھی۔ اس میں مریضوں کو دوا بھی مفت دی جاتی تھی اور کھانے کا رہنے کا خرچ بھی حکومت کی طرف سے ادا کیا جاتا تھا۔ نور الدین نے تمام ناجائز ٹیکس موقوف کردیئے تھے۔ وہ مظلوموں کی شکایت خود سنتا اور اس کی تفتیش کرتا تھا۔ نور الدین کی ان خوبیوں اور کارناموں کی وجہ سے اس زمانے کے ایک مورخ ابن اثیر نے لکھا ہے کہ: ”میں نے اسلامی عہد کے حکمرانوں سے لے کر اس وقت تک کے تمام بادشاہوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا لیکن خلفائے راشدین اور عمر بن عبدالعزیز کے سوا۔ نور الدین سے زیادہ بہتر فرمانروا میری نظر سے نہیں گزرا“۔

وصالِ باکمال

0 comments
وصالِ باکمال حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن اَشْتَر علیہ رحمۃ اللہ الاکبر اپنے والدِ محترم کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ''حضرتِ سیِّدُنا ابوذَرّرضی ا للہ تعالیٰ عنہ کی زوجۂ محترمہ حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ ذَرّ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: جب حضرتِ سیِّدُنا ابوذَرّ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ صحرائی سفر پر تھے، میں بھی ان کے ساتھ تھی ، میں رونے لگی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیوں روتی ہو؟میں نے کہا: '' آپ اس بے آب وگیاہ ویران صحراء میں انتقال کر رہے ہیں اور اس وقت نہ تو میرے پاس کوئی ایسی چیز ہے جس سے آپ کے کفن و دفن کا انتظام ہوسکے اورنہ ہی آپ کے پاس، پھر میں کیوں نہ روؤں؟'' فرمایا:'' رونا چھوڑ، تیرے لئے خوشخبری ہے۔'' ہمارے پیارے آقا، نبی اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ''کوئی بھی دو مسلمان جن کے دو یا تین بچے فوت ہو جائیں اور وہ اس پر صبر کریں اور اجر کی امید رکھیں تو وہ کبھی بھی جہنم میں داخل نہ ہوں گے۔'' اورسرکار نامدار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ہم چند لوگوں کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا: ''تم میں سے ایک شخص صحراء میں مرے گااورا س کی وفات کے وقت مؤمنین کا ایک گروہ اس کے پاس پہنچے گا۔ '' (مسند احمد،حدیث ابی ذر الغفاری،الحدیث۲۱۴۳۱،ج۸،ص۶ ۸۔ الطبقات الکبرٰی لابن سعد،ابوذرجندب بن جنادۃ، الرقم۴۳۲، ج۴، ص۱۷۶) اب ان تمام صحابۂ کرام علیہم الرضوان میں سے کوئی زندہ نہیں رہا۔ صرف میں اکیلا باقی ہوں اور ان سب کی وفات یا تو شہر میں ہوئی یا آبادی میں ۔ اور میں صحراء میں فوت ہو رہا ہوں ۔یقیناوہ شخص میں ہی ہوں ، اوراللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!نہ میں نے جھوٹ کہااور نہ ہی مجھے جھوٹی خبر ملی ، تُو جااور دیکھ ، ضرورکوئی نہ کوئی ہماری مدد کو آئے گا۔'' میں نے کہا:'' اب توحُجّاجِ کرام بھی جاچکے اورراستہ بند ہوگیا۔''فرمایا:'' تو جاکر دیکھ تو سہی۔'' چنانچہ، میں ریت کے ٹیلے پر چڑھی اورراستے کی طرف دیکھنے لگی، تھوڑی دیر بعد واپس ان کے پاس آگئی اورتیمارداری کرنے لگی پھر دوبارہ ٹیلے پر چڑھ کر راہ تکنے لگی ۔ اچانک کچھ دور مجھے چند سوار نظر آئے، میں نے کپڑا ہِلا کر انہیں اس طرف متوجہ کیا تو وہ بڑی تیزی سے میری طرف آئے اور پوچھا:'' اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بندی! کیا بات ہے ؟''میں نے کہا :'' مسلمانوں میں سے ایک مرد، داعئ اَجَل کو لَبَّیْک کہنے والا ہے، کیا تم اسے کفن دے سکتے ہو؟''انہوں نے کہا : ''وہ کون ہے ؟''میں نے کہا: ''ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔'' کہا: ''وہی ابوذر جو پیارے آقاصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صحابی ہیں؟''میں نے کہا:'' ہاں! وہی ابو ذرجو صحابئ رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ۔'' یہ سنتے ہی وہ کہنے لگے : ''ہمارے ماں باپ ان پر قربان! وہ عظیم ہستی کہاں ہے؟''میں نے انہیں بتایا تو وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف تیزی سے لپکے اورحاضرِ خدمت ہو کر سلام عرض کیا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیتے ہوئے انہیں ''مرحبا''کہا اور فرمایا : ''تمہیں خوشخبری ہو!میں نے نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کویہ فرماتے ہوئے سنا:''کوئی بھی دو مسلمان جن کے دو یا تین بچے فوت ہوجائیں اور وہ اس پر صبر کریں اور اجر کی امید رکھیں تو وہ کبھی بھی جہنم میں داخل نہ ہوں گے۔'' اورآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ایک گروہِ مسلمین سے مخاطب ہوکر فرمارہے تھے جس میں میں بھی موجود تھا کہ ''تم میں سے ایک شخص صحراء میں وفات پائے گااور مؤمنین کا ایک قافلہ اس کے پاس پہنچ جائے گا۔'' (المرجع السابق) اب میرے علاوہ ان میں سے کوئی زندہ نہیں ان میں سے ہر ایک یا تو آبادی میں فوت ہوا یا پھر کسی بستی میں ،اب میں ہی وہ اکیلا شخص ہوں جو صحراء میں انتقال کر رہا ہوں ۔اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !نہ میں نے جھوٹ بولا اورنہ ہی مجھے جھوٹ بتایا گیا۔ جب میں مرجاؤں اور میرے پاس یا میری زوجہ کے پاس کفن کا کپڑ ا ہو تو مجھے اسی میں کفنادینا اگر ہمارے پاس کفن کا کپڑا نہ ملے تو میں تمہیں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم دیتا ہوں کہ تم میں سے جو شخص حکومتی عہدے دار ہو یا کسی امیر کادربان ہویا کسی بھی حکومتی عہدے پر ہو تو وہ مجھے ہرگز ہرگز کفن نہ دے ۔ اتفاق کی بات تھی کہ ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی حکومتی عہدے پر رہ چکا تھا یا ابھی عہدے پر قائم تھا ۔ صرف ایک انصاری نوجوان بچا جو کسی طرح بھی حکومت کا نمائندہ نہ تھا۔ وہ نوجوان آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: ''میرے پاس ایک چادر اوردو کپڑے ہیں جنہیں میری والدہ نے کات کر بنایا ہے، میں اِنہیں کپڑوں میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کفن دوں گا ۔'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:'' ہاں! تم ہی مجھے کفن دینا۔'' پھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوگیا تو اسی انصاری نوجوان نے کفن دیااور نمازِ جنازہ کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وہیں دفنا دیا گیا۔'' (اللہ عزوجل کی اُن پر کروڑوں رحمتیں ہوں..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم) کچھ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ان کا اسم گرامی جندب بن جنادہ ہے مگر اپنی کنیت کے ساتھ زیادہ مشہور ہیں۔ بہت ہی بلند پایہ صحابی ہیں اور یہ اپنے زہد وقناعت اورتقوی وعبادت کے اعتبار سے تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں ایک خصوصی امتیاز رکھتے ہیں ۔ ابتداء اسلام ہی میں مسلمان ہوگئے تھے یہاں تک کہ بعض مؤرخین کا قول ہے کہ اسلام لانے میں ان کا پانچواں نمبر ہے ۔ انہوں نے مکہ مکرمہ میں اسلام قبول کیا پھر اپنے وطن قبیلۂ بنی غفار میں چلے گئے پھر جنگ خندق کے بعد ہجر ت کر کے مدینہ منورہ پہنچے اورحضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے بعد کچھ دنوں کے لیے ملک شام چلے گئے پھر وہاں سے لوٹ کر مدینہ منورہ آئے اور مدینہ منورہ سے چند میل دور مقام''ربذہ''میں سکونت اختیارکرلی۔ (اکمال،ص۵۹۴) بہت سے صحابہ اورتابعین علم حدیث میں آپ کے شاگرد ہیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں بمقام ربذہ ۳۲ھ؁ میں آپ نے وفات پائی۔ (اکمال ،ص۵۹۴) ان کے بارے میں حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا ارشادگرامی ہے کہ جس شخص کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زیارت کا شوق ہووہ ابوذر کا دیدارکرلے۔ (کنزالعمال،ج۱۲،ص۲۵۵)