تفسیر فتح القدیر میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملک الموت حضرت عزرائیل علیہ السلام سے پوچھا تمہیں کسی انسان کی روح قبض کرتے وقت کبھی رحم بھی آیا ہے؟ (حالانکہ اللہ عزوجل خوب جانتا ہے)
ملک الموت نے عرض کیا۔ یا اللہ عزوجل ! مجھ کو دو انسانوں کی جان نکالنے میں ملال ہوا تھا ، اگر تیرا حکم نہ ہوتا تو میں ہرگز ہرگز ان کی جان نہ نکالتا۔
ایک اس وقت جب نیلے بیکراں سمندر میں ایک چھوٹا سا جہاز اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ جہاز میں بہت سارے مسافروں کے علاوہ ایک عورت ایسی بھی تھی جس کی ہاں ا بھی اسی وقت بچہ پیدا ہونےوالا تھا۔تیرے حکم سے میں نے پرسکون سمندر میں اچانک ہی لہریں اٹھا دیں اور ساتھ ہی ہوا بھی تیز کردی

سبھی مسافر حیران وپریشان سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اچانک ہی موسم نے اپنا مزاج کیسے بدل لیا۔ طوفان بڑھتا جا رہا تھا اور مسافر زندگی کی دعائیں مانگ رہے تھے لیکن تجھ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ہوا کے تیز جھکڑوں اور سمندر کی طاقتور موجوں نے جہاز کو توڑ کر ٹکڑوں میں بدل دیا۔ جن مسافروں کو تیرنا آتا تھا۔ وہ تیر کر اپنی جان بچانے کی جی توڑ کوشش کر رہے تھے ۔ لیکن میں نے تیرے حکم سے اکثر کی روحیں قبض کرلیں۔
وہ عورت جس کو بچہ پیدا ہونے والا تھا ، جہاز ڈوبنے کے خوف اور طوفان کی دہشت سے بے ہوش ہو چکی تھی اور جہاز کے ٹوٹے ہوئے ایک تختے پر پڑی ہوئی تھی او ریہ تختہ بے اتھاہ سمندر میں تیز لہروں کے سہارے بہتا چلا جا رہا تھا اور اسی حالت میں عورت کے یہاں بچہ پیدا ہوا اور ولادت کے اگلے ہی لمحے مجھے تیری طرف سے حکم ہوا کہ اس عورت کی روح قبض کرلی جائے۔حکم کی تعمیل پلک جھپکنے سے قبل ہوگئی۔ اس وقت اس عورت کی روح قبض کرتے ہوئے مجھے پر رقت طاری ہوئی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ جانتے ہو بعد میں اس بچے کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ۔ حضرت عزرائیل علیہ السلام نے فرمایا ۔ میرا رب عزوجل ہی تمام جہانوں کے معاملات سے آگاہ ہے ۔اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا کہ میں نے اس پر اپنی بے پناہ نوازشات فرمائیں۔ اور اس کو دنیا کا بادشاہ بنا یا لیکن بجائے میرا شکر گزار بندہ بننے کے اس نے کفر کی راہ اختیار کی۔
(العیاذ بااللہ)
اس بچے کا واقعہ کچھ یوں منقول ہے۔ کہ وہ بچہ بے سروسامانی کی حالت میں اکیلا ہی تختے پر پڑا رہا اور وہ تختہ کئی دنوں بعد اللہ کے حکم سے کنارے پر آلگا۔ کنارے پر موجود ایک مچھیرے نے جو یہ دل سوز نظارہ دیکھا کہ ایک بچہ تختے پر پڑا کنارے کی طرف آرہا ہے اور ایک عورت اس پر مری پڑی ہے تو اس نے لپک کر بچے کو اٹھا لیا۔ اور میت کو وہی قریب میں زمین کھو د کر دفن کر کے بچے کو اپنے ساتھ گھر لے آیا۔
مچھیرا جب بچہ لیکر گھر پہنچا تو بچے کو دیکھ کر اس کی بیوی بہت خوش ہوئی کیونکہ اس کی یہاں کوئی اولاد نہیں تھی۔ اور انہوں نے بچے کا نام" شداد "رکھا۔مچھیرا اور اس کی بیوی اس بچے کی لاڈو پیار سے پرورش کرنے لگے یہاں تک کہ وہ سات برس کا ہوگیا اتنی کم عمر میں شداد نہایت ہی ذہین ، عقل مند اور چالاک بھی تھا۔ ایک روز گاؤں کے باہر شداد بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک ہی شور اٹھا کہ بادشاہ کی سواری آرہی ہے۔
یہ سنتے ہی سارے بچے بادشاہ کے ڈر سے بھاگئے لیکن شداد وہی قریب کے ایک ٹیلے میں چھپ کر بادشاہ کی سواری اور شاہی لشکر کا نظارہ دیکھنے لگا۔ یہاں تک کہ تمام لشکر گزر گیا اور بادشاہ کی سواری گزرنے کے بعد کچھ پیادے، گری پڑی ہوئی چیزوں کی خبر گیری کے واسطے لشکر کے پیچھے پیچھے آئے۔ ان پیادوں میں سے ایک پیادے نے راستے میں ایک پوٹلی پڑی ہوئی پائی۔ اس نے جب پوٹلی کو کھولکر دیکھا تو اس میں ایک سرمے دانی تھی۔ وہ پیادے اپنے ساتھیوں سے بولا۔
”میں نے سرمہ پایا ہے.... اگر تمہاری اجازت ہو تو میں اسے اپنی آنکھوں میں لگاؤں کیونکہ میری بنائی بھی کچھ کمزور ہو گئی ہے شاید اس سے کچھ فائدہ ہو جائے۔
اس کے ساتھیوں نے جواب دیا....اول تو راستے میں پڑی ہوئی چیز اٹھانا نہیں چاہئے۔ خیر اب تو نے اٹھا ہی لی ہے تو بغیر آزمائے ہوئے آنکھوں میں ہر گز مت لگانا کہیں فائدے کے اور نقصان نہ ہوجائے۔ پہلے کسی اور کی آنکھوں میں لگا کر دیکھ۔
یہ سنکر پیادے نے ادھر اُدھر دیکھا تو اسے شداد ایک ٹیلے کی اوٹ میں کھڑا نظر آیا۔ پیادے نے اسے بڑے پیار سے بلایا اور کہا۔ آبیٹا ! ہم تیری آنکھوں میں سرمہ لگادیں تاکہ تیری آنکھیں اچھی لگیں۔
شدادنے پیادے سے سرمے دانی اور سلائی لیکر اپنی آنکھوں میں سرمہ لگایا۔ سرمہ لگاتے ہی شداد کے چودہ طبق روشن ہوگئے اور اسے زمین کے اندر چھپے ہوئے تمام خزانے بالکل اسی طرح سے نظر آنے لگے جیسے صاف شفاف پانی میں چیزیں نظر آتی ہیں۔ یہ اللہ کی نوازشات میں سے ایک بہت بڑی نوازش تھی۔ شداد حد سے زیادہ چالاک تو تھا ہی لہٰذا اپنی چالاکی اور عقل مندی سے چلایا.... اے خانہ خراب ظالموں !.... تم نے میری آنکھیں پھوڑ دیں.... ہائے میں اندھا ہو گیا.... یہ میری آنکھ میں کیسا زہر لگوا دیا .... ہائے اب میں بادشاہ کے پاس جاکر فریاد کروں گا اور تم کو سزا دلواؤنگا ۔
پیادوں نے جو یہ سنا تو مارے خوف کے سرمہ وہیں چھوڑ ا، گرتے پڑتے اپنی جان بچانے بھاگ کھڑے ہوئے اورشداد اپنی چالاکی اور پیادوں کی بزدلی پر خوب ہنسا اورسرمہ دانی لیکر اپنے گھر آگیا اور اپنے باپ سے ساراواقعہ بیان کر دیا ۔ مچھیرا اپنے بیٹے کی ہوشیاری سے بہت خوش ہوا اور بولا۔ ”رات کو جب سب لوگ سو جائیں گے تو ہم اپنے بھروسے کے مزدوروں کے ساتھ پھاؤڑے وغیرہ لیکر چلیں گے اور جہاں بھی تجھ کو خزانے نظر آئیں گے ہم وہاں سے کھود کر نکال لیں گے۔اور اپنے گدھوں اور خچروں پر لاد کر خزانہ لے آئیں گے۔
اس طرح شداد نے بہت سا مال و دولت اورجواہر اکٹھے کر لئے تھے۔ اور سب گاؤں والوں کو آئے دن دعوتیں کر کر کے اپنا ہم درداور رفیق بنا لیا تھا۔ کچھ عرصے بعد شداد نے اس گاؤں کے سردار کو قتل کر کے اس کی جگہ پر خود سردار بن بیٹھا۔ ہوتے ہوتے یہ خبر دوسرے حاکموں اور فوجداروں کو پہنچی تو انہوں نے شداد کو سزا دینے کا ارادہ کیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر گزرتے ، شداد نے بھی اپنی ایک فوج تیار کر لی اور ان حاکموں فوجداروں سے مقابلہ کیا اور اپنی ذہانت اور بہادری سے سب حاکموں کو ایک ایک کر کے ہلاک کر دیا اور اس طرح سے بڑھتے بڑھتے شداد تمام روئے زمین کا بادشاہ بن بیٹھا اور سارے جہاں کے حاکم، امراءاور سردار اس کے مطیع وفرمابردار ہوئے۔
شداد نے بے پناہ خزانے جمع کرلئے تھے۔ اور اپنا لشکر اس قدر وسیع اور مضبوط بنا لیا تھا کہ چہ ہر طرف اسی کا حکم چلتا تھا۔ اپنی طاقت اور بہترین حکمت عملی کے ذریعے شداد نے اپنی سلطنت کو کمال عروج بخشا تھا اور روئے زمین کے کسی انسان کو اتنی طاقت نہیں تھی کہ اس کا مقابلہ کر سکے۔ بہ پناہ خزانوں اور مال و دولت ، وسیع و عریض سلطنت ، عظیم الشان لاؤ لشکر اور اپنی ذہانت و طاقت کی وجہ سے شداد اب غرور اور تکبر میں مبتلا ہو گیاتھا۔ اور اس نے دعویٰ خدائی کر ڈالا۔عالموں اور واعظوں نے اس ملعون کو پندو نصیحتیں کیں اور حق تعالیٰ کے خوف اور اس کی عبادت کی طرف رغبت دلانے کی بہت کوششیں کیں لیکن شداد کا کہنا تھا کہ دولت و حکومت جاہ ثروت، عزت وشہرت اور حشمت سب کچھ میرے پاس موجود ہے تو مجھے کیا ضرورت کہ میں کسی خدا کی اطاعت کروں۔عالموں نے سمجھایا کہ یہ سب ملک و دولت فانی ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کرو گے تو وہ تمہیں جنت عطاکرینگے جو اس دنیا سے کروڑہا درجے بہتر ہوگی۔
شداد نے پوچھا کہ اس جنت میں کیا خوبی ہے ؟تو عالموں نے جو کچھ بھی خوبیاں اور تعریفیں جنت الفردوس کی پڑھی اور سنیں تھیں وہ سب اس کے سامنے بیان کر دیں۔ عالموں کی باتیں سنکر شداد نے حقارت سے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ ”مجھے اس جنت کی کوئی پرواہ نہیں اور نہ ہی مجھے وہ جنت چاہئے۔ کیونکہ مجھ میں اتنی طاقت اور قوت ہے کہ میں اس سے بھی اچھی جنت اس دنیا میں بنا سکتا ہوں“۔
اس کے بعد اس نے اپنی جنت بنانے کا حکم نامہ جاری کیا۔ جس کو ابھی آپ نے تفصیل سے پڑھا ۔لیکن اپنی جنت کو دیکھنے سے پہلے ہی اللہ نے اس کو عبرت کا نشان بنادیا۔ اور اس کا تکبر اور کفر اس کے کچھ کام نہ آیا۔
اس وقعہ میں عبرت کے بے شمارپہلو پوشیدہ ہیں۔ایک یہ کہ تکبر سے ہمیشہ بچتے رہنا چاہئے کہ تکبر انسان کو تنزلی کی طرف دھکیل دیتا ہے۔اور متکبر انسان نشان عبرت بن جاتا ہے۔کیونکہ تکبر جہنم میں لے جانے والا کام ہے تکبر صرف اللہ رب العزت کی ذات کے لئے ہی مخصوص ہے۔
دوسرا یہ کہ اللہ عزوجل کی خفیہ تدبیر سے ہمیشہ ڈرتے رہنے چاہیئے کہ نہ جانے ہمارے بارے میں اللہ کی خفیہ تدبیر کیا ہے۔ اللہ تعالی سے ہمیشہ عافیت طلب کرتے رہنا چاہیئے۔
اے اللہ ہم تجھ سے بری موت سے پناہ چاہتے ہیں اور عافیت کا سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ ہمیں اسلام پر زندہ رکھ اور ایمان کی حالت میں موت عطاء فرمانا۔ آمین یا رب العالمین
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔