حضرت علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کی علمی فراست
امیر المؤمنین حضرتِ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے زمانہ ء خلافت میں حضرتِ سَیِّدُنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کی تو ان سے فرمایا:'' اے حذیفہ ! تم نے صبح کیسے کی ؟'' عرض کی:'' اے امیرالمؤمنین! میں نے اس طرح صبح کی کہ فتنے سے محبت کرتا ہو ں اور حق کو ناپسند کرتا ہوں اور وہ کہتا ہوں جو پیدا نہیں ہوا اور اس بات کی گواہی دیتاہوں جسے میں نے دیکھا نہیں اور بغیر وضو کے صلوٰۃ پڑھتا ہوں اور میرے پاس زمین پرایک ایسی چیز ہے جو اللہ عزوجل کے پاس آسمانوں میں نہیں ہے۔'' تو سیدنا عمر بن خطا ب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بات پر شدید غضبناک ہوگئے اور ان کی گرفت کا ارادہ فرمایا مگرپھر ان کی نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صحبت یعنی صحابیت کا خیال آیا تو رُک گئے ۔اسی اثناء میں باب علم حضرتِ سَیِّدُنا علی المر تضی کرم اللہ وجہہ الکریم وہاں سے گزر ے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرہ پر غضب کے آثار ملاحظہ فرمائے تو پوچھا:'' اے امیر المؤمنین! آپ کو کس بات نے غضبناک کیا ہے ؟'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پورا قصہ سنادیاتو حضرتِ سَیِّدُنا علی المر تضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے کہا:'' آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان سے ناراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ان کا قول کہ''میں فتنے سے محبت کرتاہوں ۔''

اللہ عزوجل کے اس فرمان کی تاویل ہے :اِنَّمَاۤ اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ ؕ
ترجمہ :تمہارے مال اور تمہارے بچے جانچ (آزمائش ) ہی ہیں ۔(پ28،التغابن:15)
اور ان کے اس قول کہ'' میں حق کو ناپسند کرتا ہوں۔'' میں حق سے مراد موت ہے جس سے کسی کو چارہ نہیں اورنہ کوئی اس سے بچ سکتاہے او را ن کے اس قول کہ'' وہ بات کہتا ہوں جو پیدا نہیں کی گئی''سے مراد قرآن پاک ہے کہ یہ قرآن پڑھتے ہیں اور قرآن مخلوق نہیں اور ان کے ا س قول کہ'' اس بات کی گواہی دیتاہوں جسے میں نے دیکھا نہیں''کا مطلب یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی تصدیق کرتاہوں حالانکہ اسے دیکھا نہیں اور ان کے ا س قول کہ'' بغیر وضو صلوٰۃ پڑھتا ہوں ۔''کامطلب یہ ہے کہ یہ نبی مکرَّم ،رَسُول ِاکرم ،شہنشاہِ بنی آدم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر بغیر وضو کے درودِپاک پڑھتے ہیں ،ان کے ا س قول کہ'' میرے پاس زمین پر ایسی چیز ہے جو اللہ عزوجل کے پاس آسمانوں میں نہیں ہے۔'' سے مراد بیوی اور بچے ہیں کیونکہ اللہ عزوجل کے پاس ان میں سے کوئی چیز نہیں۔
حضرتِ سَیِّدُنا عمر بن خطا ب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :'' اے ابو الحسن ! اللہ آپ پر رحم فرمائے ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو کتنی ذہانت سے نوازا ہے، بے شک آ پ نے میرا ایک بہت بڑا مسئلہ حل کردیاہے ۔''
(کتاب "بحرالدموع" مؤلف : امام ا بن جوزی رحمۃ اللہ علیہ : مترجم: صفحہ 211)
نوٹ:۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے راز دان بھی کہلاتے تھے۔ آپ کا لقب سرِ رسول ﷺ بھی ہے۔ نبی اکرم ﷺ آپ سے ایسی باتیں بھی ارشاد فرمایا کرتے تھے جو آپ کسی اور کو ارشاد نہ فرماتے تھے۔آپ کی گفتگو مختصر اور معنی کثیر ہواکرتے تھے۔آپ فتنوں والی کافی احادیث کے راوی بھی ہیں۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ حدیث کے مطابق علم کا دروازہ ہیں ۔ حضرات ابوبکر و عمررضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے دور میں یہ قاضی القضاء (چیف جسٹس) کے منصب پر فائز تھے۔ اور حضرات شیخین اکثر الجھے ہوئے مسائل میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف رجوع فرمایا کرتے تھے۔
(اللہ عزوجل کی اُن سب پر رحمت ہو..ا ور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلي اللہ عليہ وسلم
0 comments:
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔