dailymotion-domain-verification=dm67ezljlaa1ez90i May 2016 | Daily news

Saturday, May 28, 2016

بادشاہ حموربی

0 comments
بادشاہ حموربی حموربی قدیم بابل کے پہلے شاہی خاندان کا چھٹا اور سب سے مشہور بادشاہ تھا ۔اس کا دورِ حکومت 1810 قبل از مسیح سے شروع ہوکر 1750 قبل از مسیح تک تھا۔ سمیر اور اکاد ’’جنوبی عراق‘‘ کی شہری ریاستوں کو اپنی قلمرو میں شامل کیا اور لرسا کے ایلمی بادشاہ کو شکست دے کر اس کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ مگر فتوحات سے زیادہ اپنے ضابطہ قوانین کی وجہ سے اس نے شہرت پائی۔۔

حموربی کا قانونی ، آئینی اور اخلاقی ضابطہ دنیا کا سب سے قدیم ضابطہ تصور کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے اکثر ضوابط اسی سے ماخوذ ہیں ۔انجیل میں اس کا نام ام رافیل ’’فرماں روائے شنار‘‘ (سمیر) ہے۔ ضابطہ قوانین میں عدالت ، کھیتی باڑی ، آبپاشی ، جہاز رانی ، غلاموں کنیزوں کی خریدوفروخت ، آقا اور غلام کے تعلقات ، شادی بیاہ ، وراثت ، ڈاکا ، چوری وغیرہ سے متعلق قوانین کے اصول بیان کیے گئے ہیں۔ یہ ضابطے پتھر کی تختیوں پر کندہ تھے اورآج برٹش میوزیم میں محفوظ ہیں۔ حموربی نے بکثرت عمارتیں بھی بنوائیں اور نہریں کھدوا کر آبپاشی کا نظام درست کیا۔ ایک زبردست بادشاہ ہونے کے علاوہ حمورابی ایک زبردست کلدانی ساحر و ماہر طلسمات و روحانیات بھی تھا اس کی طلسمات کے موضوع پر سب سے مشہور تصنیف مکاشفات حمورابی ہے جو بابل کے علاقے ایلم کی کهدائی کے دوران محلات کے کھنڈرات سے پتھر کے کتبوں پر کندہ کی ہوئیں برآمد ہوئیں جو کہ برٹش میوزیم میں موجود ہے

Saturday, May 21, 2016

کوہ قاف یا کوہ قفقاز

0 comments
کوہ قاف یا کوہ قفقاز
 (دوبارہ) کوہ قاف کا ذکر تو آپ نے بچپن میں بہت سی کہانیوں میں سنا ہوگا۔جیسے ایک بادشاہ کی بیٹی محل کے چھت پر گھوم رہی ہوتی ہے ۔تو ایک "دیو" اس کو اٹھا کر کوہ قاف میں قید کردیتا ہے ۔بادشاہ مختلف ممالک کے شہزادوں کو اس مہم پر روانہ کرتا کہ جومیری شہزادی کوواپس لائے گا میں اس کی شادی اپنی بیٹی سے کردوں گا۔تو ایک نیک دل شہزادہ بھی اس مہم پر روانہ ہوتا ہے اس کی ملاقات ایک بزرگ سے ہوتی ہے جو اس کی نیک دلی کی وجہ سے اس کو ایک انگوٹھی دیتےہیں جس کی بدولت وہ فوراً کوہ قاف پر پہنچ کر دیو کو مار کر شہزادی کو آزاد کروا کر واپس اس کے وطن لے آتا ہے ۔اس طرح شہزادی کی شادی اس شہزادے سے ہوجاتی ہے۔ اس طرح کی ملتی جلتی کہانیاں آپ نے ضرور پڑھی ہوں گی لیکن شائد آپ کو معلوم نہ ہو کہ "کوہ قاف " اصل میں ہے کہاں؟ لیں جی کچھ دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کی بار بار فرمائش پر آپ کو اس کے متعلق دوبارہ اضافے کے ساتھ کوہ قاف کے متعلق معلومات دیتےہیں۔ کوہ قاف جس کو کوہ قفقاز بھی کہتے ہیں۔ اور انگریزی میں اسے Caucasus Mountains کہتے ہیں۔ بحیرہ اسود اور بحیرہ قزوین کے درمیان خطہ قفقاز کا ایک پہاڑی سلسلہ ہے جو ایشیا اور یورپ کو جدا کرتا ہے۔ کبھی اس کا شمار روس میں ہوتا تھا۔ لیکن روس کے ٹوٹنے کے بعد اب یہ حصہ چیچنیا میں شمار ہوتا ہے۔ کوہ قاف کے پہاڑی سلسلے کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ البروس ہے جو 18 ہزار 506 فٹ (5 ہزار 642 میٹر) بلند ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ کوہ قاف کا سلسلہ یورپ میں ہے یا ایشیا۔ اسلئے کہ یہ کوہ قاف کا پہاڑی سلسلہ کافی طویل ہے۔ جو کہ تقریبا 1100 کلومیٹر لمبا اور 160 کلومیٹر چوڑا ہے۔ کوہ قاف کے شمالی دامن میں واقع چچنیا کی چھوٹی سی جمہوریہ جس کا رقبہ پندرہ ہزار مربع کلو میٹر ہے اور آبادی دس لاکھ سے بھی کم، صدیوں سے روس سے نبرد آزما رہی ہے ۔ گو کوہ قاف کا یہ پورا علاقہ سولہویں صدی سے صفوی ایران ، سلطنت عثمانیہ اور زار روس کے درمیان کشمکش اور معرکوں کا مرکز رہا ہے لیکن چچنیا کے عوام نے اپنی آزادی کی جنگ کا آغاز اس وقت کیا جب اٹھارویں صدی کے آخر میں عیسا ِِئی جارجیا نے ماسکو کے ساتھ اتحاد کیا اور چچنیا ایک طرف جنوب میں جارجیا اور شمال میں روس کے گھیرے میں آگیا ۔ قفقاز کا پہاڑی سلسلہ شمالی قفقاز اور ماورا‌ قفقاز میں تقسیم کرتا ہے- شمالی قفقاز روس کی سرزمین ہے جبکہ ماورا قفقاز میں خودمختار ریاستیں جارجیا، آرمینیا اور آذربائجان واقع ہیں- قفقاز کے پہاڑ کافی ڈھلوان ہیں- اس پہاڑی سلسلے میں 5 ہزار میٹر سے زیادہ لمبے چند پہاڑ ہیں- سب سے اونچے پہاڑ ایل بروس اور کازبیک ہیں جن کی بلندی بالترتیب 5 ہزار 642 اور 5 ہزار 33 میٹر ہے- ان پہاڑوں کی برف کی سفید چادرمیں لپٹی ہوئی دو دو چوٹیاں ہیں- دراصل یہ پہاڑ مردہ آتش فشاں ہیں- پہاڑوں کی مخروط شکل، ڈھلوانوں پر گرم گیسوں کا اخراج اور معدنی پانی کے سرچشمے آتش فشانوں کے گزرے وقت میں پھٹنے کی یاد دلاتے ہیں- اس علاقے میں معدنی پانی کے سرچشموں کی بہتات ہے- سب سے مقبول سرچشموں کے نام "نارزان"، "برژومی" اور "یسین توکی" ہیں- ان کے قریب مشہور صحت گاہیں اور تفریحی مقامات واقع ہیں جہاں روسی لوگ سوویت زمانے سے آرام و تفریح کرنا پسند کرتے ہیں- شمالی قفقاز کے حالات موسمی طور پر معتدل ہیں- اونچے پہاڑ گرم جنوبی ہواؤں کو وہاں نہیں آنے دیتے جبکہ یوں ٹھنڈی شمالی ہوائیں اس علاقے تک نہیں پہنچتیں- جاڑے میں شمالی قفقاز میں کڑاکے کی سردی نہیں پڑتی اور گرمیوں میں دریاۓ کوبان کی وادی میں چاول جیسی فصل اگانے کے لیے سازگار حالات ہیں- وہاں سے شمال کی طرف چاول اور کہیں نہیں اگایا جا سکتا- شمالی قفقازمیں بہت زیادہ گلیشیر موجود ہیں اور موسم بہار میں جب ان کی برف پگھلنے لگتی ہے تو مقامی دریا پانی سے بھر جاتے ہیں- اس لیے اس سوکھے علاقے میں پانی کی قلت کا مئسلہ کبھی پیدا نہیں ہوتا- شمالی قفقاز کے سب سے بڑے دریا کوبان اور تیریک ہیں- قفقاز صحت بخش ہوا کا ایک ذخیرہ ہے اور اس کے مناظر کو بے حد حسین قرار دیا جا‌ۓ تو مبالغہ نہیں ہوگا- روس کے کوہ پیماؤں کو قفقاز سے بڑا لگاؤ ہے- اکثر کوہ پیما ایل بروس کو سر کرنے کی کوشش کرتے ہیں- قفقاز کی وادیوں میں کوہ پیماؤں کے کئی کیمپ اور مقام تبردا اور دومبئ میں پہاڑی اسکی انگ کے اڈے قائم ہیں- شعبۂ سیاحت کے لحاظ سے قفقاز کے پہاڑی سلسلے کی صلاحیات یورپ کے کوہ آلپس سے کچھ کم نہیں ہیں- پاکستان، ہندوستان اور ایران میں کوہ قاف کے متعلق جنوں اور پریوں کے بے شمار قصے مشہور ہیں جو نہ صرف عوام میں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے رہے ہیں بلکہ بچوں کی کہانیوں میں باقاعدہ لکھے جارہے ہیں ۔ ہوسکتا ہے اس میں کچھ صداقت بھی ہو کیونکہ میں نے بعض اسلامی کتب میں بھی کوہ قاف کے جنات کا تذکرہ پڑھا ہے۔ہوسکتا ہے یہ ویران جگہ جنات کا مسکن ہو۔ لیکن تصدیق کرنا مشکل ہے۔باقی اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس میں کتنی سچائی ہے۔

Saturday, May 14, 2016

دلچسپ معلومات

0 comments
دلچسپ معلومات

جزیرہ ٹیولارا دلچسپ حقائق

0 comments

جزیرہ ٹیولارا دلچسپ حقائق

 
آج اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو جزیرہ ٹیولارا کے بارے کچھ دلچسپ حقائق بتاتے ہیں۔ جن کو پڑھ کر آپ 

ضرور محظوظ ہوں گے۔

اٹلی کے سریدینیا نامی ساحل پر ایک ایسا کنگری دار پہاڑ نما جزیرہ موجود ہے جسے Tavolara کے نام سے جانا جاتا ہے- یہ جزیرہ 5 کلومیٹر طویل اور 1 کلومیٹر چوڑائی کا حامل ہے- اس جزیرے کا ایک رخ اٹلی کے ساحل کی جانب سے ہے جبکہ دوسرا ایک ڈھلوان نما طویل راستہ ہے جو کہ ایک ریتیلے ساحل سے محلق ہے- دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جزیرے کا یہی حصہ رہائش کے قابل بھی ہے-

لیکن آپ کو یہ جان کر ضرور حیرانی ہوگی کہ یہاں گزشتہ 200 سالوں سے صرف گیوسپی برٹولیونی Giuseppe Bertoleoni فیملی سے تعلق رکھنے والا خاندان ہی آباد ہے-

گیوسپی برٹولیونی نامی شخص Genovese کا رہائشی تھا اور اس نے اس جزیرے پر اپنے خاندان کے ساتھ 1807 میں قدم رکھا- اس کے خاندان میں دو بیویاں اور بچے شامل تھے- گیوسپی برٹولیونی کو دو بیویاں رکھنے کی وجہ سے اس جزیرے پر رہائش اختیار کرنا پڑی کیونکہ جیونوسی میں یہ عمل ایک جرم تھا-

جزیرے پر پہنچ کر گیوسپی برٹولیونی نے خود کو یہاں کا بادشاہ قرار دے دیا اور تب سے آج تک اس جزیرے پر اسی خاندان کی حکمرانی ہے- ان خودساختہ حکمرانوں کے گزر بسر کا دارومدار ماہی گیری٬ زراعت اور سیاحوں کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے پر ہے- اور اسی مقصد کے تحت یہاں دو ریسٹورنٹ بھی قائم کیے گئے ہیں-

گیوسپی برٹولیونی کو جزیرے پر جنگلی بکروں کی ایک ایسی نایاب قسم دریافت ہوئی جن کے دانت سنہری رنگ کے تھے اور اس انوکھے رنگ کی وجہ اس جانور کا سمندری گھاس کو خوراک بنانا تھا- اس جانور کی خبر جب سردینیا کے حکمران کارلو البرٹو تک پہنچی تو وہ 1836 میں اس جزیرے پر اس بکرے کے شکار کے لیے پہنچ گیا- گیوسپی برٹولیونی کے 24 سالہ بیٹے پاؤلو نے جب البرٹو کی آمد کی خبر سنی تھی وہ خود البرٹو کے پاس جا پہنچا اور خود کو جزیرے کے بادشاہ کے طور پر متعارف کروایا-

البرٹو نے 3 دن اس جزیرے پر بطورِ مہمان گزارے اور وہ پاؤلو کی مہمان نوازی سے اس حد تک خوش ہوا کہ اس نے جانے سے قبل کہا کہ “ پاؤلو تم واقعی اس جزیرے کے حقیقی معنوں میں بادشاہ ہو“- تاہم چند سال بعد جب ریاست کی انتظامیہ نے اس خاندان سے یہ جزیرہ ضبط کرنے کی کوشش کی تو پاؤلو دوبارہ البرٹو کے پاس جا پہنچا اور اس جزیرے کی بادشاہت کی سند حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا کیونکہ اس سے قبل سب کچھ زبانی کلامی ہی تھا- پاؤلو نے واپس جزیرے پر پہنچ کر فخریہ انداز میں اپنے گھر کی دیوار پر اپنی بادشاہت کی پلیٹ لگا لی-

سال 1900 میں برطانیہ کے ملکہ وکٹوریہ نے جب اس وقت دنیا بھر کے رہنماؤں کی تصاویر اکٹھی کرنے کا آغاز کیا تو اس جزیرے پر انہوں نے اپنی ذاتی فوٹوگرافر بھیجا تاکہ وہ یہاں کے شاہی خاندان کی تصاویر کھینچ سکے- اس جزیرے کے شاہی خاندان کی تصویر آج بھی بکھنگم پیلس میوزیم اور جزیرے پر موجود ریسٹورنٹ کی دیوار پر لگی دیکھی جاسکتی ہے-

تاہم اس خاندان کی حاکمیت 1934 میں اختتام پذیر ہوگئی جب اٹلی نے اس جزیرے کو اپنے قبضے میں لے لیا- 1962 میں یہاں نیٹو نے اپنا بیس کیمپ قائم کردیا جو کہ جزیرے کے آدھے مشرقی حصے پر قائم ہے جبکہ آدھے حصے پر رہائش موجود ہے- آج یہ خاندان جزیرے پر صرف 50 ہیکٹر کے رقبے پر آباد ہے- اگرچہ یہ خاندان اب حکمران تو نہیں ہے لیکن اب بھی جزیرے کی دیکھ بھال اور حفاظت کے حوالے سے اپنا اہم کردار ادا کر رہا ہے-

اس وقت اس جزیرے کا موجودہ بادشاہ " ٹونی نو" Tonino اسے سرکاری طور پر تسلیم کروانے کے لیے سخت کوشاں ہے اور اگر وہ کامیاب ہوجاتا ہے تو اسے دنیا کی چھوٹی سلطنتوں میں سے ایک ہونے کا اعزاز حاصل ہوجائے گا-

قوم ثمود

0 comments
  • قوم ثمود

مدینہ منورہ سے کوئی 300 کلومیٹر دور ایک خاموش علاقہ ہے ۔جس کو میدان صالح کہتے ہیں۔ اس علاقے میں حضرت صالح علیہ السلام کی قوم آباد تھی۔ اس قوم کو قوم ثمود کہتے ہیں ۔ یہ قوم حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کے ہم عصر تھے۔ حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کو قوم عاد کہتے ہیں ۔ جن کی باقیات آج کل بحرین کے صحرا میں موجود ہیں ۔
قوم ثمود نے اللہ عزوجل سے کفر کیا۔یہ بہت بڑے لمبے چوڑے اور طاقتور تھے، انہوں نے پہاڑوں کے اندر اپنے گھر بنا رکھے تھے۔ جو کسی بھی موسمی شدت کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ وہ حضرت صالح علیہ السلام کی تبلیغ کے مقابلے میں کہتے اے صالح علیہ السلام ہمارے عظیم الشان گھروں کو دیکھ کیا ہم بہت زیادہ طاقت والے نہیں ؟ اگر ہمارے مقابلے پر کوئی اور قوم ہے ان کو لاؤ ہمارے سامنے ۔لیکن جب انہوں نے اللہ کی نشانی اونٹنی کو مار ڈالا ۔ جس کا تذکرہ "حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی" میں گزر چکا ہے۔
حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ 3 دن اپنے گھروں میں فائدہ اٹھا لو ۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ جھوٹا نہیں ہو گا۔ تو اللہ نے ان حضرت صالح علیہ السلام کو اور کچھ لوگوں سے اپنی مہربانی سے بچا لیا ۔اس قوم کو چنگاڑ نے آ پکڑا ۔۔۔ وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے ۔ فرشتے کی وہ چیخ یا چنگاڑ اتنی شدید تھی کہ ان کے کلیجے پھٹ گئے، اور اپنی گھروں میں پڑے پڑے ہی ہلاک ہو گئے ۔ وہ جتنے بھی طاقتور تھے لیکن اللہ سے زیادہ زور آور نہیں ہو سکتے ۔ وہ برتر اور اعلی ہے ۔
روایت میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے کچھ اصحاب کے ساتھ اس علاقے سے گزرے ۔ تو نبی رحمت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے چہرہ انوار پر اضطراب تھا۔ اور ایسا لگتا تھا وہ جلدی میں ہیں۔ وہاں کے لوگوں نے ایک کنوئیں کا پانی پیش کیا، لیکن نبی امت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو منع فرما دیا اور جلد وہاں سے نکلنے کا حکم دیا، صحابہ نے اضطراب کی وجہ پوچھی تونبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا یہاں اللہ کا عذاب نازل ہوچکا ہے۔ یہ علاقہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کا ہے جس پر اللہ نے سخت عذاب نازل کیا ۔وہاں پر پانی نہ پینے اور نہ ٹھہرنے کی حکمتیں ایسے راز ہیں جس کی خبر ہمیں نہیں ہے

بنی اسرائیل کے بارہ گمشدہ قبائل

0 comments
بنی اسرائیل کے بارہ گمشدہ قبائل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام کا عبرانی لقب اسرائیل تھا۔ لہذاان کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی۔ حضرت یعقوب کے بارہ بیٹے تھے۔ اللہ نے ان کی اولاد میں بڑی برکت عطا کی تھی ۔ اس لیے ابتدا سے ہی بنی اسرئیل بارہ قبیلوں میں تقسیم ہوگئے تھے۔ اسرائیل میں بارہ قبائل آباد تھے جنہیں بنی اسرائیل کے اجتماعی نام سے پکارا جاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ صرف دو قبائل (آج کے یہودی) توریت پر عمل کرتے ہیں جبکہ باقی اب دس قبائل توریت کو تسلیم نہیں کرتے ۔ لیکن یہ بھی بنی اسرائیل کا حصہ تھے۔ آج کا شمالی اسرائیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے تقریباً آٹھ سو سال پہلے نینوا کی اشوریہ قوم نے فتح کرلیا تھا جبکہ جوڈا کے نام سے موسوم جنوبی علاقہ پر صدیوں بعد بابل سے آنے والے حملہ آوروں نے قبضہ کیا۔ جب بابل کے فرماں روا بخت نصر نے یروشلم (موجودہ فلسطین )پر قبضہ کرکے اسرائیلی بادشاہت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تو بنی اسرائیل کے بہت سے قبیلے بھاگ کر ایران (فارس) کے قریب غور کے پہاڑوں میں جا بسے اور پھر یہاں سے دیگر خطوں تک پھیل گئے۔ ہزاروں سال سے دنیا میں زمانہ قدیم کے گمشدہ یہودی قبائل کے بارے میں گردش کرنے والی داستانوں کے مطابق ایتھوپیا میں آباد فلاشا یہودیوں اور افغانستان، مشرقی ایران اور پاکستان کے پشتون قبائل کو ان یہودیوں کی نسل سمجھا جاتا ہے۔ پشتون افغانستان میں سب سے بڑا نسلی گروپ اور پاکستان میں دوسرا بڑا نسلی گروہ ہے۔ خود بعض افغانوں کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق قدیم زمانہ کے یہودیوں سے تھا جبکہ افغانستان کے آخری بادشاہ ظاہر شاہ مرحوم برملا یہ اقرار کرتے رہے کہ ان کا تعلق بنی اسرائیل کے بن یامین قبیلے سے ہے۔ اس طرح پاکستان اور افغانستان کی نصف آبادی یہودی قبیلے کے بچھڑے بہن بھائیوں پر مشتمل ہے۔ آج کل کے یہودی بھی بنی اسرائیل کی ہی نسل میں سے ہیں۔ اسی طرح وادی قلاش کے لوگوں کے متعلق بھی مختلف کتب میں لکھا ہے کہ ان کا تعلق بھی بنی اسرائیل سے ہی ہے۔ لیکن اب ان گمشدہ قبائل کے متعلق حتمی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کہاں گئے۔ اور کس قوم میں تبدیل ہوگئے۔ بنی اسرائیل کے قبیلوں کے نام کتبِ تاریخ میں کچھ یوں درج ہیں۔ 1۔ رئبون قبیلہ رئبون کا علاقہ بحیرہ مردار کا مشرقی علاقہ جو وادی موجب تک تھا۔ تورات کے مطابق قبیلہ رئبون کی اولاد پر مشتمل ہے جو کہ یعقوب علیہ السلام اور لیاہ کے پہلے بیٹے تھے۔ 2۔ شمعون عبرانی کتاب مقدس کے مطابق قبیلہ یعقوب علیہ السلام اور لیاہ کے دوسرے بیٹے شمعون کی اولاد ہیں۔ 3۔ لاوی تورات کے مطابق قبیلہ لاوی کی اولاد پر مشتمل ہے جو کہ یعقوب علیہ السلام اور لیاہ کے تیسرے بیٹے تھے۔قبیلہ لاوی یا قبیلہ لیوی (Tribe of Levi) بنی اسرائیل کے بارہ قبائل میں سے ایک ہے۔حضرات موسیٰ و ہارون علیہم السلام نبی اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔جس وجہ سے اس قبیلہ کو خاص عزت ملی۔ کوہ سیناء پر لاویوں کو جب خدا کے انتظام میں اہم ذمہ داریاں تفویض ہوئیں۔ تو اس وقت یہ مان لیا گیا کہ خدا کی رحمت اس قبیلے کے ساتھ ہے۔ 4۔ یہودہ تورات کے مطابق قبیلہ یہودہ کی اولاد پر مشتمل ہے جو کہ یعقوب علیہ السلام اور لیاہ کے چوتھے بیٹے تھے۔یہودی اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ 5۔ دان بنی اسرائیل کے بارہ قبائل میں سے ایک ہے۔کتاب حزقی ایل کے مطابق ان کو زمین کا شمالی حصہ عطا کیا گیا تھا۔ تورات کے مطابق قبیلہ یعقوب علیہ السلام اور بلہاہ کے بیٹے دان کی اولاد ہیں۔ 6۔ نفتالی نفتالی حضرت یعقوب علیہ السلام کے باره بیٹوں میں سے ایک هے۔ اور یہ بنی اسرائیل کے قبیلہ نفتالی کے سربراه (یعنی قبیلہ نفتالی ان کی نسل سے ہیں)۔ 7َ۔جاد جاد بنی اسرائیل کا ایک قبیلہ ہے، جو کہ ملک سامریہ کے مشرقی حصہ میں آباد تھا۔ اس قبیلہ کے بانی جاد تھے جو کہ یعقوب علیہ السلام کے بیٹے تھےـ 8۔ آشیر حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے آشیر کی اولاد سے منسوب قبیلہ 9۔یساکار حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے یساکار کی اولاد سے منسوب قبیلہ 10۔زبولون حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے زبولون کی اولاد سے منسوب قبیلہ 11۔یوسف یہ قبیلہ حضرت یوسف علیہ السلام کی اولاد سے منسوب تھا۔ 12۔بنیامین بنیامین حضرت یعقوب علیہ السلام کے سب سے چهوٹے بچے اور ان کی نسل سے جاری قبیلہ ہے۔ یہ قبیلہ بنیامین بیت المقدس پر حکمران تها۔ ان کے بارے میں مختلف کتب میں لکھا۔کہ یہ حضرت یوسف علیہ السلام کے حقیقی بھائی تھے۔اور ان کو ہی حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک حیلے سے اپنے پاس مصر میں رکھ لیا تھا۔ اور بعد میں یہ ہی وجہ حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی ملاقات کی بنی۔ امید ہے یہ معلومات آپ کے علم میں اضافے کا باعث بنی ہوگی۔ اگرآپ کو یہ معلو مات پسند آئی ہوں تو اسے اپنے دوستوں سےضرور شئیر کریں۔

Friday, May 13, 2016

اسپرین کے حیرت انگیز دیگر کمالات

0 comments
اسپرین کے حیرت انگیز دیگر کمالات اسپرین دنیا بھر میں مقبول ترین درد کش گولی ہے جو سستی ہونے کے باعث ہر طبقے کے استعمال میں رہتی ہے تاہم کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ دوا صرف درد پر ہی قابو نہیں پاتی بلکہ مختلف اقسام کے کینسر اور متعدد امراض کے خلاف بھی فائدہ مند ثابت ہوتی ہے۔ مگر بات یہی ختم نہیں ہوتی طبی لحاظ سے مفید یہ گولی صرف بیماریوں کے خلاف ہی مفید نہیں بلکہ اس سے ایسے روزمرہ کے کام بھی سرانجام دیئے جاسکتے ہیں جن کا آپ نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہوگا۔ اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو ڈان نیوز کے آرٹیکل سے ماخوذ اسپرین کے دیگر حیرت انگیز کمالات کے بارے میں بتاتے ہیں۔ گاڑیوں کی مردہ بیٹریوں میں نئی جان ڈالنا اگر تو گاڑی چلانے کے لیے اسٹارٹ کرتے ہوئے آپ کے سامنے یہ انکشاف ہوا کہ کار کی بیٹری نے تو کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور ارگرد مدد کے لیے کوئی موجود نہیں تو آپ کیا کریں گے؟ ان حالات میں اسپرین کی دو گولیاں واقعی مددگار ثابت ہوں گی بس آپ انہیں بیٹری کے اندر ڈال دیں۔ اسپرین میں پائے جانے والا ایسی ٹائل سیلی سیلک ایسڈ بیٹری میں موجود سلفرک ایسڈ کے ساتھ مل کر اس مردہ بیٹری میں کرنٹ دوڑا دے گا اور آپ کچھ دور تک سفر کرکے قریبی سروس اسٹیشن تک پہنچ سکیں گے۔ پسینے کے داغوں کو مٹانا موسم گرما میں جسم سے پسینہ پانی کی طرح بہتا ہے اور اس دوران ہلکے رنگ کے کپڑوں پر اس کے داغ بھی نمایاں ہوجاتے ہیں جن کو صاف کرنا ناممکن تو نہیں تاہم مشکل ضرور ہے، تاہم مایوس مت ہو بس اپنے سفید یا ہلکے رنگ کی قمیض پر سے پسینے کے داغ مٹانے کے لیے اسپرین کی دو گولیوں کو پیس کر کپڑے دھونے والے پاﺅڈر میں مکس کرکے ایک یا دو کپ گرم پانی میں ڈال دیں۔ پھر اس محلول یا سلوشن میں اپنی قمیض کو دو سے تین گھنٹے تک بھگو کر رکھیں آپ اس کا اثر دیکھ کر واقعی حیران ہوجائیں گے۔ بالوں کی رنگت کی بحالی اور سر کی خشکی سے نجات اگر تو آپ کے بال ہلکے رنگ کے ہیں تو کلورین ملے پانی سے نہانے سے اس کے اثرات بالوں کے رنگ پر بہت نمایاں اور ناخوشگوار محسوس ہوتے ہیں تاہم آپ اپنے بالوں کو اصل شکل میں واپس بہت آسانی سے لاسکتے ہیں، بس چھ سے آٹھ اسپرین گرم پانی کے ایک گلاس میں ڈال دیں، پھر اس پانی کو اپنے بالوں پر چھڑک کر مساج یا مالش کریں اور دس پندرہ منٹ تک یہ عمل دوہرائیں بالوں کی اصل رنگت بحال ہوجائے گی۔ اسی طرح اسپرین ایسے اجزاء(سیلی کائی لیک ایسڈ) سے بھرپور دوا ہے جو بیشتر خشکی سے نجات دلانے والے شیمپوز کا حصہ ہوتے ہیں۔ اسپرین کی 2 گولیوں کو پیس کر سفوف کی شکل دیں اور سر پر لگانے کے لیے جتنا شیمپو لیتے ہیں اس میں شامل کرلیں، اس مکسچر کو اپنے بالوں پر ایک سے دو منٹ تک لگا رہنے دیں اور پھر اچھی طرح دھولیں، اس کے بعد پھر سادہ شیمپو سے سر کو دھوئیں آپ اس کا اثر دیکھ حیران رہ جائیں گے۔ چیرے کے دانوں کو خشک کرنا نوجوانی میں دانوں کا چہرے پر ابھرنا عام ہوتا ہے جو سرخ ہونے کے ساتھ ساتھ تکلیف کا بھی باعث بنتے ہیں۔ اکثر پچیس سے تیس سال کی عمر تک بھی اس کا تجربہ ہوتا رہتا ہے جو اکثر افراد خاص طور پر خواتین کے لیے فکرمند کا باعث ہوتا ہے۔ تو ایسا ہونے کی صورت میں دانوں سے نجات کے لیے اسپرین کی ایک گولی کو پیسے اور میں تھوڑا سا پانی ڈال کر پیسٹ سا بنالیں۔ اس پیسٹ کو دانوں پر لگائیں اور کچھ منٹوں تک آرام سے بیٹھے رہیں جس کے بعد چہرے کو صابن اور پانی سے دھولیں۔ اس عمل سے سرخی کم ہوجائے گی اور دانے خشک ہونے لگیں گے، اگر آرام نہ آئے تو اس عمل کو اس وقت تک دوہرائیں جب تک دانے خشک نہ ہوجائے۔ سخت جلد کا علاج اپنے پیروں کی سخت ہوجانے والی جلد کو نرم کرنے کے لیے پانچ سے چھ اسپرین کو پیس کر سفوف کی شکل دے دیں۔ اس میں ایک سے دو چائے کے چمچ پانی اور لیموں کا عرق شامل کرکے پیسٹ بنالیں۔ اس مکسچر کو متاثرہ حصوں میں لگائیں اور پھر اپنے پیروں پر گرم تولیہ لپیٹ کر انہیں کسی پلاسٹک بیگ سے کور کرلے۔ کم از کم دس منٹ تک اسی حالت میں رہیں پھر پلاسٹک بیگ اور تولیے کو ہٹا دیں اور اپنے پیروں کی نرمی کو محسوس کرکے حیران ہوجانے کے لیے تیار ہوجائیں۔ بالوں کی خشکی کو کنٹرول کرنا بالوں کی خشکی کا مسئلہ کس کو درپیش نہیں ہوتا جس کے لیے مہنگے سے مہنگے شیمپوز اور کریمیں وغیرہ استعمال کی جاتی ہیں۔ تاہم اس پر قابو پانے کا آسان ترین نسخہ اسپرین کی شکل میں موجود ہے بس دو گولیوں کو پیس کر سفوف بنادیں اور اس میں شیمپوں کی نارمل مقدار شامل کرکے اپنے سر پر لگالیں۔ اس مکسچر کو ایک سے دو منٹ تک لگا رہنے دیں اور پھر دھولیں۔ اس کے بعد اپنے سر کو صرف شیمپو سے ایک بار دھونا نہ بھولیں۔ کیڑوں کے کاٹے اور ڈنک کی تکلیف سے نجات مچھر کے کاٹنے یا شہد کی مکھی کے ڈنک سے ہونے والی سوجن کو کنٹرول کرنے کے لیے اسپرین کی ایک گولی کو متاثرہ حصے پر آہستہ آہستہ مالش کی طرح رگڑے۔ آپ تکلیف میں فوری طور پر نمایاں کمی محسوس کریں گے جبکہ سوجن بھی کنٹرول میں آجائیں گی۔ پھولوں کو دیر تک زندہ رکھیں گلاب یا کسی بھی پھول کو جب ٹہنی سے کاٹ لیا جاتا ہے تو وہ کچھ دیر بعد مرجھانا شروع ہوجاتے ہیں تاہم اگر آپ اسے کافی دیر تک تازہ رکھنا چاہتے ہیں تو اسپرین کی ایک گولی پیس کر پانی میں ڈالے اور وہ پانی کسی گلدان یا ایسے برتن میں ڈال دیں جس میں آپ پھول رکھ سکیں، وہ پھول عام دورانیے سے زیادہ عرصے تک مرجھانے سے بچے رہیں گے۔ باغبانی میں مددگار اسپرین نہ صرف آپ کے درد پر قابو پانے کے لیے بہترین ہے بلکہ آپ کے باغ کو بھی اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ کچھ افراد اسپریم کو پیس کر خراب جڑوں کے اوپر ڈال دیتے ہیں یا پانی میں مکس کرکے زمین پر فنگس کا علاج کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، تاہم یہ احتیاط رکھیں کہ اپنے پودوں کے ارگرد اسپرین کا استعمال بہت زیادہ نہ کریں، بس ایک گولی اور ایک لیٹر پانی کافی ثابت ہوگا۔ کپڑوں پر سے انڈے کے داغ ہٹانا کیا پکانے یا کھانے کے دوران انڈے کی زردی نے آپ کے لباس کو داغ دار کردیا ہے؟ تو ان کو ہٹانے کے لیے پہلے آپ اسفنج نیم گرم پانی کے ساتھ اس جگہ پر رگڑیں، گرم پانی استعمال نہ کریں کیونکہ اس سے داغ پختہ ہوجائے گا، اگر پھر بھی داغ نہ ہٹے تو پھر ٹارٹریٹ کی کریم اور پانی کو مکس کرکے ایک پیسٹ کی شکل دیں اور اس میں اسپرین کی ایک گولی کو پیس کر شامل کرلیں۔ اس پیسٹ کو داغ پر پھیلائیں اور تیس منٹ تک کے لیے چھوڑ دیں اس کے بعد اسے گرم پانی سے دھولیں۔ داغ صاف ہوجائے گا۔ ( تحریر فیصل ظفر اردو ڈان نیوز بلاگ)

بیت المعمور

0 comments
بیت المعمور کچھ دوستوں نے مجھ سے بیت المعمور کے بارے میں پوچھا ہے۔ میں نے اس کے بارے میں اسلامی کتب میں تفصیل ڈھونڈنے کی کافی کوشش کی۔ لیکن اس کے بارے میں اسلامی کتب میں بہت کم معلومات موجود ہیں۔ میں جتنی بھی اس کے بارے میں معلومات اکٹھی کرسکا وہ اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں سے شئیر کررہا ہوں۔ اگر آپ کو اس کے بارے کچھ مزید معلوم ہوتو کمنٹس میں ضرور رہنمائی فرمائے گا۔ شکریہ بیت المعمورساتویں آسمان پر خانہ کعبہ کی طرز پر ایک گھر ہے جس کے گرد ہر وقت ہزاروں فرشتے طواف کرتے رہتے ہیں۔ بیت المعمورساتویں آسمان پر بالکل خانہ کعبہ کی سیدھ میں واقع ہے۔ کتب میں لکھا ہے کہ اس کا طواف روزانہ ستر ہزار فرشتے کرتے ہیں۔اور جو فرشتہ بیت المعمور میں ایک مرتبہ طواف کر لیتا ہے اس کی قیامت تک پھر باری نہیں آئے گی۔ قرآن حکیم میں سورہ طور میں بیت المعمور کا ذکر ہوا ہے۔ طور کی قسم اور اس مسطور کی جو کُھلے دفتر میں لکھا ہے اور بیعتِ معمور۔ اور بلند چھت۔۔ حدیث شریف میں ہے کہ فرشتوں کا قبلہ بیتُ المعمور ہے جو آسمان میں ہے اورخانہ کعبہ کے بالکل اوپر ہے۔ (کنز العمال، کتاب الفضائل، باب فی فضائل الامکنۃ) معراج شریف کی طویل حدیث میں سے کچھ حصہ یوں بھی ہے۔ ساتویں آسمان پر نبی اکرم ﷺ جب تشریف لائے تو وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی وہ بیت المعمور سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے جس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں۔ جو ایک بار آتے ہیں دوبارہ لوٹ کر نہیں آتے (مسلم شریف) دلائلِ النبوۃ میں یوں ہے۔ یہاں تمام انبیاء اورمُرسَلین کے ساتھ نماز پڑھی اور''بَیْتُ الْمَعْمُور''میں سب انبیاء اور امت مرحومہ اور پچھلی امتوں کے ایمان والوں نے بھی آپ کی امامت میں نماز پڑھی۔ کچھ لوگ پہلی صف میں تھے کچھ دوسری کچھ تیسری اور کچھ ان صفوں میں تھے جو بیت المعمور کے باہر تھیں، فرق مَراتِب میں تھا ،اُن میں کچھ کے کپڑے سفید تھے اور کچھ کے میلے۔ سفید والے صالحین ہیں اور میلے گنہگار تھے ان سب نے بیت المعمور میں نماز ادا کی۔ (دلائل النبوۃ و بیھقی شریف ،ابواب المبعث) اور بعض علماء نے اس میں اختلاف بھی کیا ہے کہ معراج کی شب تمام انبیاء نے بیت المقدس میں آپ ﷺ کی امامت میں نماز ادا کی اور بیت المعمور میں آپ کی امامت میں صرف فرشتوں نے نماز ادا کی۔ واللہ اعلم بحار الانوار میں ہے کہ بیت المعمور زمین اور آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے تخلیق کیا گیا۔ ذہن میں رہے آسمان سات ہی ہیں۔ جس کو آج تک سائنس ثابت نہیں کرسکی۔ لیکن اس پر ہمارا ایمان ہے۔ کیونکہ قرآن پاک میں اللہ تعالی خود ارشاد فرماتا ہے۔ جس نے سات آسمان بنائے ایک کے اوپر دوسرا تو رحمٰن کے بنانے میں کیا فرق دیکھتا ہے تو نگاہ اٹھا کر دیکھ تجھے کوئی رخنہ یعنی کوئی خلا نظر آتا ہے۔ (سورہ ملک آیت 3) بہر حال بیت المعمور فرشتوں کا قبلہ ہے جو سات آسمانوں سے اوپر ہے عین کعبہ معظمہ کے اوپر ہے۔ وہ کیسا ہے۔ کتنا بڑا ہے۔ کس رنگ کا ہے کس چیز سے بنا ہے۔ اس بارے میں (میرے علم کے مطابق) احادیث میں کوئی معلومات نہیں۔ واللہ اعلم

بُراق کے بارے دلچسپ معلومات

0 comments
بُراق کے بارے دلچسپ معلومات آج اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو براق کے متعلق کچھ معلومات فراہم کرتے ہیں۔ براق عربی سے ماخوذ لفظ ہے جو برق سے بنا ہے جس کا مطلب تیزی ہے۔ جیسے ہماری اردو میں بجلی کو برقی رو بھی کہتے ہیں۔ براق وہ سواری جس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شبِ معراج میں سواری کی تھی۔ اور جنت میں بھی مومنین کو یہ سواری عطا کی جائے گی۔ قرآن میں اس سواری کا کہیں ذکر تو نہیں۔لیکن بخاری و مسلم شریف سمیت دیگر کتب احادیث میں معراج کی احادیث میں اس کا ذکرآیا ہے۔بعض شارحین کا کہنا ہے کہ اس جانور کا منہ انسان سے مشاہبت رکھتا تھا اور جسم گھوڑے کا تھا اور اس کے دو پر بھی تھے۔ رنگ بالکل سفید تھا۔جو خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا تھا۔ اس کا رنگ چمکدار اور سفید تھا۔ اس کا نام ’’براق‘‘ تھا۔یعنی بجلی سے بھی زیادہ تیزرفتار۔ احادیث میں روایت ہے کہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے راوی کہ رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے فرمایا کہ میرے پاس براق لایا گیا وہ سفید دراز جانور ہے گدھے سے اونچا خچر سے نیچا اپنی ٹاپ یعنی اپنا قدم اپنی نگاہ کی حد پر رکھتا ہے۔ میں اس پر سوار ہوگیا حتی کہ میں بیت المقدس میں آیا تو میں نے اسے اس کڑے سے باندھا جس سے حضرات انبیاء باندھا کرتے تھے پھر میں مسجد میں داخل ہوا تو اس میں دو رکعتیں پڑھیں پھر میں نکلا تو میرے پاس جبریل علیہ السلام ایک برتن شراب کا اور ایک برتن دودھ کا لائے تو میں نے دودھ اختیار کیا تو جبرئیل علیہ السلام بولے کہ آپ نے فطرت کو اختیار کیا پھر ہم کو آسمان کی طرف چڑھایا گیا ۔ (مسلم شریف) جب تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو براق پر سوار کیا گیا تو وہ فخر و اِنبساط سے جھومنے لگا کہ آج اسے سیاحِ لامکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری ہونے کا لازوال اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔ براق اس سعادتِ عظمیٰ پر وجد میں آ گیاتھا۔ اس پر حضرت جبرئیلِ امین علیہ السلام نے اس سواری سے فرمایا : ’’رک جا! اللہ کی عزت کی قسم تجھ پر جو سوار بیٹھا ہے آج تک تجھ پر ایسا سوار نہیں بیٹھا‘‘۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو براق پر سوار کرا کے انہیں بیت المقدس کی طرف لے جایا گیا۔ براق کی رفتار کا یہ عالم تھا کہ جہاں سوار کی نظر پڑتی تھی وہاں اس کا قدم پڑتا تھا۔ یہاں کچھ علماء نے ایک بڑی پیاری بات لکھی ہے کہ براق صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اعزاز کے طور پر آپ کو پیش کیا گیا تھا۔ وگرنہ آپ کو اللہ تعالی اس کے بغیر بھی اس سے زائد تیزرفتاری سے بلوا سکتا تھا۔ یا یوں کہیں کہ انبیاء براق کے محتاج نہیں ان کی رفتار تو براق سے بھی تیز ہوتی ہے۔ وہ ایک پل میں یہاں ہیں تو دوسرے پل وہاں۔ دیکھو معراج کی رات بیت المقدس میں تمام انبیاء کی امامت کروانے کے بعد آپ آسمان کی طرف براق پر تشریف لے جاتے ہیں۔ اور وہاں جن انبیاء نے آپ کی امامت میں نماز پڑھی تھی وہ پہلے ہی آسمانوں پر پہنچ چکے تھے۔ قرون وسطی میں براق مسلمان فنکاروں ، شاعروں اور مصوروں کا محبوب موضوع رہا ہے۔ یروشلم میں مسجد صغری میں ایک پتھر رکھا ہوا ہے جو "دیوار گریہ" یا" دیوار براق" کے قریب ہے ۔ اسے براق کی زین بتایا جاتا ہے۔ اسی براق کے نام پر ہی ترکی، بوسنیا اور پولینڈ میں بچوں کے نام براق رکھنے کا رواج ہے۔لیبیا کی ہوائی جہاز کی کمپنی کا نام بھی اسی پر براق ائیر ہے۔انڈونیشیا کی ہوائی کمپنی کا نام بھی براق تھا جسکو 2006 میں بند کردیا گیا۔ چند سال پہلےپاکستان نے اپنا ڈراون طیارہ تیار کیا تھا جس کا نام بھی براق کے نام پر ہی رکھا ہے۔ یعنی براق ڈراون۔ یہ برق نامی ایک لیزر گائیڈڈ میزائل سے لیس ہے۔ یہاں ایک ضمناً بات عرض کرتا چلوں۔ کہ سائنس دانوں کے مطابق دنیا کی تیز ترین چیز روشنی ہے۔ جس کو آئن سٹائن نے اپنی مشہور تھیوری آف ریلیٹویٹی (نظریہ اضافت) میں بیان کیا تھا۔ کہ روشنی ایک لاکھ 86 ہزارمیل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ روشنی کائنات کی ایک اہم ترین توانائی ہے اور اس کائنات میں موجود چیزوں کے وجود کا احساس ہمیں روشنی ہی دلاتی ہے۔ جدید فزکس میں ستاروں ، سیاروں اور کہکشاؤں کے درمیان فاصلوں اور رفتار کا تعین روشنی کی رفتار سے کیا جاتا ہے مگر اب فزکس اور کائنات کی تخلیق پر تحقیق کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی تجربہ گاہ کے سائنس دانوں نے کہاہے کہ مسلسل تین سال سے جاری ان کے حالیہ تجربوں سے یہ ثابت ہوا کہ’نیوٹرینو‘ (گاڈ پارٹیکلز یا خدائی ذروں) کی رفتار روشنی کی رفتار سے تیز ہے۔ بہرحال براق کے متعلق زیادہ معلومات میسر نہیں ہیں۔اصل حال اور اس کا ادراک تو ان شاء اللہ جنت میں جاکرہی ہوگا۔اللہ ہم سب کو جنت الفردوس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں جگہ عطاء فرمائے۔ اور جہنم سے اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔آمین

وارن بفٹ کی زندگی کے کچھ دلچسپ پہلو

0 comments
وارن بفٹ کی زندگی کے کچھ دلچسپ پہلو آج اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو دنیا کے تیسرے امیر ترین شخص کے بارے میں کچھ دلچسپ معلومات دیتے ہیں۔ جو کہ ماضی میں 2008ء میں ایک بار بل گیٹس کو پچھاڑ کر دنیا کا سب سے زیادہ امیر انسان بھی رہ چکا ہے۔

1۔ آج کے دور میں بھی وارن بفٹ کے پاس سمارٹ موبائل فون نہیں ہے۔

2۔ اس کے آفس میں اس کے ڈیسک پر کمپیوٹر تک موجود نہیں ہے۔

3۔ 2006 تک وہ اپنی گاڑی بھی خود چلاتا تھا۔ یعنی اس نے کوئی ڈرائیور بھی نہیں رکھا تھا۔ اب بڑھاپا ہونے کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر سکتا۔

4۔ بل گیٹس کی طرح اس نے بھی اربوں روپے خیراتی کاموں میں خرچ کئے ہیں اور اب بھی کررہا ہے۔

5۔ دس سال کی عمر سے ہی وارن بفٹ نے نیویارک سٹاک ایکس چینج کے لوگوں کے ساتھ لنچ کرکے اپنے زندگی کے مقاصد طے کرنے شروع کردئیے تھے جبکہ بچے ہالی وڈ کے کارٹون اور مویز کے شوقین ہوتے ہیں۔

6۔ اس نے اپنا سب سے پہلا سٹاک 11 سال کی عمر میں خریدا تھا۔

7۔ کچھ عرصہ یہ لوگوں کے گھروں میں وال

8۔ اس نے آج تک صرف ایک ای میل بھیجی ہے۔

9۔ وہ اپنے دن کا اسی فیصد حصہ کتاب پڑھنے میں گزارتا ہے۔

10۔ وارن بفٹ نے 2013 میں 37 ملین ڈالر اوسطاً ایک دن میں کمائے تھے۔ جو کہ پاکستانی 3 ارب 88 کروڑ روپے بنتے ہیں۔ یعنی ایک دن میں اتنے پیسے۔

11۔ وارن بفٹ کا آئیڈیل بنجمن گراہم تھا۔ جو کہ ایک مشہور کتاب "دی انٹیلیجنٹ انوسٹر" کا مصنف تھا۔ وارن بفٹ اس کے نظریات سے بہت متاثر تھا۔ اور اس کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا تھا۔ چونکہ بنجمن گراہم ایک یہودی تھا اور وہ کسی عیسائی کے ساتھ کام کرنے کو تیار نہ تھا۔ اس لئے اس نے وارن بفٹ کی درخواست کو رد کردیا۔ بعد میں وارن بفٹ نے اسی بنجمن کے بزنس کے نظریات کو فالو کرکے جب بہت ترقی کرلی۔ تو اسی بنجمن گراہم کووارن بفٹ نے اپنا ملازم رکھ لیا۔ جس نے کبھی وارن بفٹ کو اپنا اسٹنٹ رکھنے سے انکار کیا تھا۔

اس کی خیرات کے بارے کچھ مزید معلومات

بل گیٹس اور وارن بفٹ دنیا کی امیر ترین شخصیات ہیں‘ بل گیٹس مائیکرو سافٹ کے بانی ہیں جب کہ وارن بفٹ سرمایہ کاری کی درجنوں کمپنیوں کے مالک ہیں‘ یہ دونوں دنیا میں سب سے زیادہ خیرات کرنے والے لوگ بھی ہیں۔

بل گیٹس 95 فیصد جب کہ وارن بفٹ 99 فیصد دولت دنیا کے غریبوں کے لیے وقف کر چکے ہیں‘ بل گیٹس اور وارن بفٹ نے 2010ء میں’’ دی گیونگ پلیج‘‘ کے نام سے دنیا کا سب سے بڑا خیراتی ادارہ بنایا‘ یہ ادارہ ’’بلینر کلب‘‘ بھی کہلاتا ہے‘ اس کلب کی ممبر شپ کی صرف دو شرائط ہیں
ایک:۔ دنیا کے صرف ارب پتی لوگ اس کلب کے رکن بن سکتے ہیں۔
دو:۔ یہ کلب صرف ان ارب پتی لوگوں کے لیے اپنے دروازے کھولتا ہے جو اپنی دولت کا کم از کم آدھا حصہ خیرات کرنے کے لیے تیار ہوں‘

’’دی گیونگ پلیج‘‘ چیرٹی کے لیے ریسرچ بھی کرتا ہے‘ یہ ماہرین کی خدمات حاصل کرتے ہیں‘ یہ ماہرین پوری دنیا کا سروے کرتے ہیں اور اس کے بعد اپنے ڈونر کو وہ شعبے بتاتے ہیں جن میں یہ اپنی دولت لگا سکتے ہیں مثلاً آپ بل گیٹس کو لے لیجیے‘ یہ پوری دنیا کے بچوں کے لیے ویکسین تیار کرتے ہیں‘ بل گیٹس نے دسمبر 1999ء میں پولیو کے خلاف جہاد شروع کیا‘ پولیو اس وقت 127 ممالک میں موجود تھا‘ بل گیٹس نے اربوں روپے کی پولیو ویکسین تیار کرائی اور عالمی ادارہ صحت کی مدد سے یہ ویکسین بچوں تک پہنچانا شروع کر دی‘ آج بل گیٹس کی وجہ سے پولیو صرف تین ممالک پاکستان‘ افغانستان اور نائیجیریا تک محدود ہے‘ بل گیٹس ان ممالک کو بھی پولیو فری بنانا چاہتے ہیں‘ یہ پاکستان کے ہر وزیراعظم سے ملاقات کرتے ہیں اور صرف ایک ہی درخواست کرتے ہیں ’’آپ مہربانی کر کے پولیو ورکرز کو تحفظ دیں تا کہ ہم آپ کے ملک سے پولیو ختم کر سکیں‘‘ حکومت کوشش کر رہی ہے لیکن شکیل آفریدی کی ’’مہربانی‘‘ سے ہمارے لاکھوں بچوں کی زندگیاں خطرات کا شکار ہو چکی ہیں۔
(جاوید چودھری کے کالم سے اقتباس)

میں اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو ضمناً شکیل آفریدی کے متعلق بھی بتاتا چلوں۔ شکیل آفریدی این جی او ’’سیو دی چلڈرن‘‘ کا ملازم تھا‘ اس نے پولیو ویکسی نیشن کی جعلی مہم تیار کی‘ ایبٹ آباد کی دو ایل ایچ ڈبلیوز آمنہ بی بی اور بخت بی بی کی خدمات حاصل کیں‘ یہ خواتین اسامہ بن لادن کے گھر میں داخل ہوئیں‘ اسامہ کے بچے کا ڈی این اے لیا‘ یہ ڈی این اے اسامہ کے ڈی این اے سے میچ ہو گیا اور امریکا نے خون کے اس قطرے کی بنیاد پر اسامہ بن لادن کے گھر پر حملہ کر دیا‘ بقول امریکہ اسامہ بن لادن مارے گئے۔ جس کا کوئی ثبوت بھی نہیں دیا گیا۔ لیکن پاکستان کے لاکھوں بچوں کی زندگیاں اندیشوں میں گھر گئیں‘ کیونکہ اسامہ بن لادن کو ہیرو ماننے والے آج پولیو ورکرز کو شکیل آفریدی سمجھ کر ان پر حملے کر رہے ہیں ‘ ان حملوں میں پولیو ورکرز اور ان کے محافظ قتل ہوتے ہیں۔

ایک اور بات بھی ذہن میں رہے پاکستان کے لوگ بھی بہت زیادہ خیرات کرتے ہیں۔ لیکن اس کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا ملک ریٹنگ میں نیچے آتا ہے۔ پھر بھی 2014ء میں پاکستان سب سے زیادہ خیرات کرنے والے ممالک میں پانچویں نمبر پر تھا۔ ہمارے ملک کے 80 فیصد لوگ چیرٹی کرتے ہیں‘ ہمارے ملک کے بھوکے ترین لوگ بھی مساجد مدرسوں اور اپنے خاندان کے غریبوں کو چندہ دیتے ہیں یا دوسروں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ ہسپتال بھی بنواتے ہیں۔ ایمبولنس سروس بھی بناتے ہیں۔ فری اسکول ایجوکیشن بھی دلواتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے مسائل کم نہیں ہورہے۔ اس کی وجہ ہماری کوششوں میں تسلسل اور خیراتی اداروں میں کوآرڈی نیشن اور منصوبہ بندی کی کمی ہے۔ کچھ عرصہ یہ خیراتی کام ہوتے ہیں پھر فنڈز کی کمی کے باعث خیراتی کام یا تو بالکل بند ہوجاتا ہے۔ یا پھر نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔

ہمارے پاکستان میں مذہبی تنظیمیں اور ادارے بڑے منظم ہیں‘ یہ ادارے اور تنظیمیں انتہائی فعال اور متحرک ہیں‘ یہ عام لوگوں سے رابطے میں بھی ہیں لیکن صرف مساجداور مدارس تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں لوگوں کی بہت کم مدد کرتے ہیں۔ جیسے صاف پانی اور خوراک کا حصول۔ منشیات کی روک تھام۔ صفائی کے مسائل۔ قحط زدہ علاقوں میں لوگوں کی مدد۔ چوری ڈکیتی میں حفاظت وغیرہ وغیرہ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ مساجد اور مدارس کو چندہ نہیں دینا چاہئیے بلکہ یہ بھی ہمارے معاشرے کا لازمی عنصرہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسرے شعبوں میں بھی عوام کی مدد کرنی چاہئیے۔ صرف حکومت کے اوپر نہیں چھوڑ دینا چاہئیے بلکہ ایک منظم طریقے سے عوام کی ہر شعبے میں مدد کرنی چاہئیے۔ اور یہ صرف کام کی تقسیم سے ہوسکتا ہے۔ یعنی مختلف شعبوں میں سے ایک ایک شعبہ ہر تنظیم آپس میں بانٹ لے۔ تو اس طرح آسانی ہوجائے گی اور وہ تنظیم ایک شعبے میں ماہر بھی ہوجائے گی

دھرما راجیکا۔ ٹیکسلا

0 comments
دھرما راجیکا۔ ٹیکسلا

 برصغیر کی ڈھائی ہزار سالہ قدیم یونیورسٹی جو وقت کے ہاتھوں تاریخ کے صفحات میں گم ہوگئی۔ گندھارا تہذیب کے تاج میں 'دھرما راجیکا' کی حیثیت ایک بے بہا اور چمکتے ہوئے ہیرے جیسی ہے۔ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے ٓاپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو اس کے بارے کچھ بتاتے ہیں۔

تھوڑا تصور کریں اور اس زمانے کی تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ایک طرف دنیا میں جنگ و جدل کی بگلیں چیختی ہوئی سنائی دیں گی؛ روم میں جنگیں ہو رہی تھیں، دجلہ کے کنارے پر خون بہایا جا رہا تھا، اور اناطولیہ میں نیلے آسمان پر بغاوتوں کے سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے۔

دوسری طرف چین میں 'کن شی ہوانگ' (Qun Shi Huang) ملک میں رابطوں میں وسعت پیدا کرنے کے لیے تین رویہ سڑکیں اور ان کے کناروں پر درختوں کی قطاریں لگا رہا تھا۔ یونانی ماہر ریاضی اور فلکیات 'کینن' (Canon) اپنی چوتھی کتاب پر کام کر رہا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شمال مغربی علاقوں کے بہت سے یونانیوں نے بدھ مت قبول کرلیا تھا۔ چنانچہ مشہور بھکشو 'دھرما راجیکا'، جو خود ایک یونانی تھا، کو اشوک نے یونانی نوآبادیوں میں تبلیغ کے لیے ٹیکسلا بھیجا۔

اشوکا دو بار ٹیکسلا میں گورنر رہ چکا تھا، اس نے جب اپنے باپ 'بندوسار' کے بعد حکومت سنبھالی تو باپ اور دادا کے جنگی جنون نے اس سے بھی سکھ، شانتی اور سکون چھین لیا اور جنون تھا ملک کی سرحدیں بڑھانے کا۔ اس نے 'کلنگا' پر حملہ کیا اور انسانوں کے بہتے ہوئے خون میں اپنی کامیابی کے بیج بو دیے۔ لاکھوں انسانوں کی بے بس اور بے نور آنکھوں نے اشوکا سے اس کا سکون چھین لیا۔ اپنے کھوئے ہوئے سکون کو واپس لانے کے لیے اس نے اپنے سارا دھیان انسانوں کی بھلائی کے لیے لگا دیا ۔

'دھرما راجیکا' ٹیکسلا میں پہلی بدھ خانقاہ تھی جو اشوک نے بنوائی۔ اشوکا نے اپنی سلطنت میں آٹھ مقامات پر ایسے اسٹوپا بنوائے جن میں گوتم بدھ کے پہننے کی چیزیں محفوظ کر دی تھیں، ٹیکسلا کا یہ اسٹوپا ان سب میں سے ایک تھا۔

اشوک اعظم سے کنشک تک وادیٔ سندھ کی تہذیب نے بدھ مت کے سائے میں فروغ پایا تھا۔ چنانچہ اس دور کی فنی تخلیقات کی محرک بھی وہ گہری عقیدت تھی جو ہر طبقے کے لوگوں کو گوتم بدھ کی ذات اور تعلیمات سے تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب 'بھکشو' بھی عوام کی سادہ زندگی گذارتے تھے۔ وہ گاؤں گاؤں تبلیغ کرتے پھرتے، بھیک سے پیٹ بھرتے اور رات ہوتی تو کسی باغ میں درخت کے نیچے سو رہتے۔

ٹیکسلا نے اپنی علم دینے کی روایت کو صدیوں تک قائم رکھا اور یہ سب شاید اس لیے ممکن ہوسکا کہ یہاں کا معاشرہ نہایت محفوظ معاشرہ تھا۔ لوگ بڑے امن پسند اور صلح جو تھے۔ لوٹ مار، قتل و غارت گری ان کا شیوہ نہ تھا۔ وہ نہ سپاہ و لشکر رکھتے تھے اور نہ کسی ملک پر حملہ کرتے تھے۔ اسی سکون بھرے آسمان کی بدلیوں سے علم و فلسفے کی جھڑیاں لگتی تھیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو برصغیر میں علم و ادب کا یہ سب سے بڑا مرکز نہ ہوتا۔

بدھ بھکشو اور طالبعلم شہر کے شور و غل سے دور رہنے کے عادی تھے، اسی وجہ سے سرکپ کے جنوب مشرق میں، پہاڑیوں میں گھری ایک عظیم جامع دھرما راجیکا تھی جس میں دنیا بھر سے سینکڑوں تشنگان علم اپنی پیاس بجھانے آتے تھے۔ بدھ بھکشوؤں کی یونیورسٹی دھرما راجیکا اسٹوپا کا شمار برصغیر کی قدیم ترین اسٹوپا میں ہوتا ہے

شہرِبابل کے بارے دلچسپ معلومات

0 comments




شہرِبابل کے بارے دلچسپ معلومات

بابل دنیا کے قدیم ترین شہروں میں شمار ہونے والا ایک تاریخی شہر ہے۔ بخت نصر کا تعمیر کردہ شاہی محل اور بابل کے معلق باغ قدیم فن تعمیر کے بہترین نمونے تھے وہ بھی اسی شہر میں موجود تھے۔ بابل کے معلق باغات کو دورِ قدیم کے عجائبات عالم میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو اس کے بارے کچھ معلومات فراہم کرتے ہیں۔

بابل (Babylon) میسو پوٹیمیا (موجودہ عراق) کا ایک قدیم شہر ہے جو سلطنت بابل اور کلدانی سلطنت کا درالحکومت تھا ۔ یہ موجودہ بغداد سے 55 میل دور، بجانب جنوب ، دریائے فرات کے کنارے آباد تھا۔ چار ہزار سال قبل مسیح کی تحریرں میں اس شہر کا تذکرہ ملتا ہے۔ 175 قبل مسیح میں بابی لونیا کے بادشاہ حمورابی نے اسے اپنا پایہ تخت بنایا تو یہ دنیا کا سب سے بڑا اور خوب صورت شہر بن گیا۔ 689 ق م میں بادشاہ بنوکدنصریا بخت نصر دوم نے اسے دوبارہ تعمیر کرایا۔ پرانا شہر دریائے فرات کے مشرقی کنارے پر آباد تھا۔ بخت نصر نے دریا پر پل بنوایا اور مغربی کنارے کا ایک وسیع علاقہ بھی شہر کی حدود میں شامل کر لیا۔ اس کے عہد میں شہر کی آبادی 5 لاکھ کے قریب تھی۔ معلق باغات، جن کا شمار دنیا کے سات عجائبات میں ہوتا ہے ، اسی بادشاہ نے اپنی ملکہ کے لیئے بنوائے تھے۔ 539 ق م میں ایران کے بادشاہ سائرس نے بابل پر قبضہ کر لیا۔ 275 ق م میں اس شہر کا زوال شروع ہوا اور نئےتجارتی مراکز قائم ہونے سے اس کی اہمیت ختم ہو گئی ۔ اب اس کے صرف کھنڈر باقی ہیں۔

بابل کا ذکر ہاروت اور ماروت دو فرشتوں کی کہانی کے ساتھ ساتھ قرآن پاک میں بھی موجود ہے۔ قصہ ہاروت ماروت کا تذکرہ اس دلچسپ معلومات پیج پر ہوچکا ہے۔ انگریزی میں اس شہر کا نام Babylon اور ملک یا سلطنت کا نام Babylonia کہلاتا ہے ۔مسلمان تاریخ دانوں اور جغرافیہ کے مطابق بابل کا شہر اسلام کی آمد سے طویل عرصہ قبل تباہ کر دیا گیا تھا۔بابل کی جگہ کےبارے میں کہا جاتا ہےکہ سن چار سو ہجری میں عباسیوں کے دور میں ایک چھوٹا سا گاؤں بابل کے نام سے موجود تھا۔ابن نووفال Nowfil نے بھی اسکے وجود کا ذکر کیا ہے ۔ان کے مطابق اسکی عمارتوں کو عراق میں سب سے قدیم سمجھا جاتا ہے ۔یہ بادشاہوں نے بطوردارالحکومت تعمیر کروایا تھا ۔ ان کے جانشینوں نے بھی دارالحکومت کے طور پر اسے استعمال کیا ۔
ابوالفداء لکھتے ہیں کہ یہی وہ شہر تھا جس میں نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا تھا۔آج کل کھنڈرات کے سوا کچھ بھی نہیں نظر آتا ہے۔تاہم، کھنڈرات کے درمیان میں ایک چھوٹا سا گاؤں اب بھی موجود ہے۔

یاد رہے۔یہ وہ ہی شہر ہے جس میں سکندر یونانی 32 سال کی عمر 323 قبل مسیح میں اس دنیا سے رخصت ہوا تھا۔ یہ وہ ہی سکندر ہے جس کے بارے مشہور ہے کہ اس نے آدھی سے زائد دنیا کو فتح کیا تھا۔

سلطنت بے بی لونیا
سلطنتِ بابل جس کو بے بی لونیا بھی کہتے ہیں۔ان دو سلطنتوں کا نام ہے جو جنوبی میسو پوٹیمیا (موجودہ عراق) میں‌ قائم ہوئیں۔

پہلی سلطنت قدیم بےبی لونیا کا دورتقریباً 1750 تا 1200 ق م کا ہے اس کا بانی حمورابی تھا۔
جبکہ نیا بے بی لونیا یا کلدانی سلطنت کا دور ہے جو چھٹی صدی قبل مسیح میں شاہ نیبو پولسار نے اشوری سلطنت کے کھنڈروں پر قائم کی۔ اور جسے شاہ بنو کد نصر یا بخت نصر نے عروج بخشا۔ ان دونوں ہی سلطنتوں کا دارالحکومت بابل تھا۔ 539 ق م میں سائرس اعظم نے بابی لونیا کو سلطنت فارس (ایران) میں شامل کر لیا۔

بابی لونیا اپنے عہد کا مہذب ترین ملک تھا۔ یہاں کی زبان موجودہ سامی زبانوں (عبرانی ، عربی) کی ماں تھی۔ اس کا رسم الخط میخی یا پیکانی (سہ گوشی ) دنیا کے قدیم ترین خطوں میں شمار ہوتا ہے۔ لوگ مظاہر پرست تھے لیکن انھیں مذہب سے زیادہ دنیا سے دلچسپی تھی۔ انھوں نے دیوی دیوتاؤں کے معبد بھی بنائے لیکن ان سے کہیں‌زیادہ پرشکوہ شہر اور باغات تعمیر کیے ۔ بخت نصر کا تعمیر کردہ شاہی محل اور معلق باغ قدیم فن تعمیر کے بہترین نمونے تھے۔ بابل کے لوگ علم ریاضی کے ماہر بھی تھے۔ سب سے پہلے انھوں ہی نے علم ہئیت کو سائنس کا درجہ دیا۔

Thursday, May 12, 2016

ماؤنٹ ایورسٹ سے بھی بلند پہاڑ

0 comments

ماؤنٹ ایورسٹ سے بھی بلند پہاڑ اگر آپ ماؤنٹ ایورسٹ کو دنیا کی بلند ترین چوٹی مانتے ہیں تو درحقیقیت تیکنیکی طور پر ایسا بالکل نہیں۔ جی ہاں واقعی سطح سمندر سے بلندی کے لحاظ سے ماؤنٹ ایورسٹ واقعی دنیا کی بلند ترین چوٹی ہے تاہم اگر ہم کسی پہاڑ کی زمین کی اندر چھپی لمبائی کا جائزہ لیں تو دنیا کی سب سے بلند چوٹی جزیرہ ہوائی کی ماؤنا کیا ثابت ہوگی۔ ایسا دلچسپ دعویٰ ایک نئی رپورٹ میں سامنے آیا ہے جس کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ سطح سمندر سے 29 ہزار 35 فٹ (یا 8850 میٹر) بلند ہے جبکہ ماؤنا کیا کی سطح سمندر سے بلندی صرف 13 ہزار 796 فٹ ہے تاہم یہ پہاڑ زمین کی سطح کے اندر بحر اوقیانوس میں بھی 19 ہزار 700 فٹ تک پھیلا ہوا ہے یعنی اسکا آدھے سے بھی کم حصہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔ اس طرح اس پہاڑ کی مجموعی لمبائی 33 ہزار 500 فٹ (یا تقریبا 10200 میٹر) بنتی ہے یعنی ماؤنٹ ایورسٹ سے بھی ایک میل زیادہ۔ ماؤنا کیا درحققیت ایک متحرک آتش فشاں ہے جو کہ لگ بھگ 10 لاکھ سال پرانا پہاڑ ہے اور اس سے لاوا کا آخری بار اخراج 4600 سال قبل ہواتھا۔ جزیرہ ہوائی (امریکہ) کا یہ پہاڑ خلائی تحقیق سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک جنت سے کم نہیں کیونکہ بہت کم نمی، شفاف آسمان اورکسی بھی آلودگی سے دوری کے نتیجے میں یہاں سے مختلف کائناتی سلسلوں کا نظارہ بہت زبردست ثابت ہوتا ہے۔ یہ آتش فشاں پہاڑ آخری دفعہ تقریبا 2460 قبل از مسیح میں پھٹا تھا۔ یعنی آج سے تقریبا 4500 سال سے یہ آتش فشاں نہیں پھٹا۔ اس پہاڑ کی دریافت بعض کتب کی رو سےبارویں یا تیرہویں صدی میں ہوئی۔ اس جگہ کو لوگ شکار کرنے کے لئے ' پتھروں کے اکٹھا کرنے کے لئے اور مذہبی رسومات کے لئے بھی استعمال کرتے آئے ہیں۔

انگریزی کی کچھ دلچسپ باتیں

0 comments
انگریزی کی کچھ دلچسپ باتیں
پاکستان میں بہت سے افراد کو انگلش زبان سیکھنے کابہت شوق ہے۔جس کودیکھتے ہوئے انگلش زبان کی کچھ دلچسپ باتیں یہاں پراپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں سے شئیر کرتے ہیں۔ 1۔ انگلش زبان کے جس بھی لفظ کے شروع یا درمیان میں "q" ہوگا تو اْسکے بعد ہمیشہ "u" آئے گا۔ 2۔ "Dreamt" انگلش میں وہ واحد ایسا لفظ ہے جو "mt" پر ختم ہوتا ہے اس کے علاوہ انگلش میں کوئی ایسا لفظ نہیں جو’’mt‘‘پرختم ہو۔ 3۔ "Underground" انگلش زبان میں واحد لفظ ہے جو "Und" سے شروع اور "Und" پر ہی ختم ہوتا ہے۔اس کے علاوہ انگلش میں کوئی ایسالفظ نہیں جو’’Und‘‘سے شروع ہواور’’Und‘‘پرختم ہو۔ 4۔ پوری انگلش زبان میں صرف چار الفاظ ایسے ہیں جو "dous" پر ختم ہوتے ہیں Tremendous, Horrendous, Stupendous, & Hazardous 5۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق انگلش زبان کا سب سے بڑا لفظ۔۔! "pneumonoultramicroscopicsilicovolcanoconiosis" یہ ہے جو کہ پھیپھڑے کی ایک بیماری کا نام ہے۔ 6۔ "Therein" انگلش کا ایک ایسا لفظ ہے جس سے دس الفاظ نکل سکتے ہیں۔۔! The, There, He, In, Rein, Her, Here, Ere, There,in, 7۔ Key بورڈ پر صرف بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے ٹائپ ہونے والا سب سے بڑا بامعنی لفظ "Stewardesses" ہے۔ 8۔ ہم اپنی روزمرہ گفتگو میں (ok) کا لفظ بہت استعمال کرتے ہیں لیکن بہت سے افرادکواس کی تاریخ کے بارے میں معلوم نہیں ہوگا۔کہ یہ کیوں بولاجاتاہے ۔اِس کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ ایک امریکی صدر "اینڈریو جیکسن" نے all correct کے غلط ہجے یعنی oll kurrect استعمال کرتے ہوئے اس کے ابتدائی حروف o.k کو پاپولر بنا دیا۔ 9۔ بہت سے افرادکوانگریزی میں دنیا کے براعظموں کے نام یادکرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ جن کویادکرنے کاایک آسان ساطریقہ یہ ہے۔کہ اگر انگریزی میں لکھیں تو سوائے America , North اور South کے ہر براعظم کا نام جس انگریزی کے حرف سے شروع ہوتا ہے، اسی پر ختم ہوتا ہے۔ 1۔ Asia۔۔۔2۔ Africa۔۔۔3۔ America۔۔۔4۔ Antarctica۔۔۔5۔ Europe۔۔۔6۔ Australia 10۔ "Typewriter" کا لفظ ہی وہ واحد بامعنی لفظ ہے جو Key بورڈ کی صرف پہلی قطار کے حروف کے اندر اندر ٹائپ کر سکتے ہیں۔ 11۔ خدا حافظ کہنے کے لیے انگریزی کا لفظ "Good Bye" استعمال ہوتا ہے جس کی اصل "God be with you"ہے۔ 12۔ انگریزی میں "Silver" اور "Orange" ہی دو ایسے الفاظ ہیں جن کا کوئی ہم قافیہ لفظ انگریزی میں موجود نہیں۔ 13۔ انگریزی زبان میں صرف تین الفاظ ایسے ہیں جن میں دو "u" ایک ساتھ آتے ہیں

Wednesday, May 11, 2016

کینیڈا کی پراسرار پہاڑی اور سعودی عرب کی وادیِ جنکینیڈا کی پراسرار پہاڑی اور سعودی عرب کی وادیِ جن

0 comments

کینیڈا کی پراسرار پہاڑی اور سعودی عرب کی وادیِ جنکینیڈا کی پراسرار پہاڑی اور سعودی عرب کی وادیِ جن (دوبارہ کچھ اضافے کے ساتھ) Magnetic Hill, Moncton, New Brunswick آج اپنے کچھ دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کی فرمائش پر وڈیو کے ساتھ دوبارہ کچھ اضافے کے ساتھ وادی جن اور کینیڈا کی مقناطیسی پہاڑی کے بارے میں معلومات دیتے ہیں۔ کینیڈا کی مقناطیسی روڈ میں 1930 میں دریافت ہوئی۔ کہ یہاں حیرت انگیز طور پر چیزیں اوپر کی جانب یعنی چڑھائی کی جانب کھنچی چلی جاتی ہیں۔ پہلے آپ وڈیو دیکھیں۔ یہاں ڈرائیور اپنی گاڑی کو نیوٹرل کرتا ہے ۔ اور گاڑی حیرت انگیز طور پر اوپر کی جانب چلنا شروع ہوجاتی ہے ۔ یہی ایک بال کے تجربے سے بھی ہورہا ہے۔ کہتے ہیں جب سے یہ عجیب و غریب مقام دریافت ہوا ہے تب سے لے کر آج تک اس کی جادوگری کو دیکھنے کے لیے لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس طرف کا رخ کرتی ہے-(جس طرح ہمارے پاکستانی اور دوسرے کچھ ممالک کے لوگ وادی جن (وادی بیدا) سعودی عرب کا رخ کرتے ہیں)۔ اور اب تک کئی لوگ اس بات کا سراغ لگانے کی کوشش کر چکے ہیں کہ آیا اس جگہ پر گاڑیاں کس طرح نیچے سے اوپر کی جانب جاتی ہیں۔ تو اکثر کا نظریہ ا س کے متعلق یہ ہی کہ اس پہاڑی کی روڈ پر مقناطیسی طاقت موجود ہے جو گاڑیوں کو اپنی طرف نیچے سے اوپر کھینچتی ہے۔ اسی لئے اس کا نام بھی مقناطیسی پہاڑی ہی رکھ دیا گیا ہے۔ اس طرح کے تقریبا 61 مقامات دنیا میں دریافت ہوچکے ہیں۔ اب ہم آپ کو سعودی عرب کی وادی جن کے متعلق کچھ بتاتے ہیں۔ سعودی عرب کے مقدس شہر مدینہ منورہ سے شمال مغرب کی جانب35کلو میٹر کے فاصلے پر واقع مقام وادی جن ہر فرد کو اپنی طرف متوجہ کئے ہوئے ہے۔ یوں تو عرب کے تپتے صحراؤں میں بچھا ہوا سعو دی عرب ہر مسلما ن کے لئے تاریخی اور مذہبی حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے مگر ہر سال یہاں حج و دیگر ایام میں بھی عمرہ کی ادائیگی کے لئے دنیا بھر سے آنے والے لاکھوں مسلمانوں کے لئے اپنے مذہبی فرائض کی انجام دہی کے علاوہ پر سراروادی جن کو دیکھنا اور اس کی حقیقت کے بارے میں جاننے کی جستجو اپنی جگہ موجود رہتی ہے۔ وادی جن کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ یہاں آپ اگر اپنی گاڑی کے انجن کو بند کر دیں اور اس کے گیئر کو نیوٹرل پر رکھ دیں تو آپ کی گاڑی خود بخود 120کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چڑھائی پر چلنا شروع ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ 14کلو میٹر تک مسلسل جاری رہتا ہے۔ میں چونکہ ابھی تک حجاز مقدس گیا نہیں اس لئے مجھے اس کا تجربہ نہیں۔ میں یہاں اس کے متعلق ایک صاحب کا ذاتی تجربہ آپ کو پوسٹ کررہا ہوں۔ جن کا نام عبدالرحمن ہے۔ اور وہ قطر میں جاب کرتے ہیں ۔ اور آخر میں آپ کو اس مقام کے متعلق حدیث شریف بھی بتاؤں گا۔ اورایک اور مقام کےمتعلق بھی بتاؤں گا جو کہ تقریبا اس سے ملتا جلتا ہے۔ عبدالرحمن صاحب لکھتے ہیں۔ ------------------------------- بہت سے دوسرے افراد کی طرح مجھ میں بھی وادی جن کے واقعات کو سن کو اس کو خود سے دیکھنے اور تجربہ کرنے کی لگن پید ا ہوئی۔ وادی جن کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ یہاں آپ اگر اپنی گاڑی کے انجن کو بند کر دیں اور اس کے گیئر کو نیوٹرل پر رکھ دیں تو آپ کی گاڑی خود بخود 120کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنا شروع ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ 14کلو میٹر تک مسلسل جاری رہتا ہے۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ وادی جن میں جہاں پر گاڑی کاانجن بند کر دیا جائے اور اس کے گیئر کو نیوٹرل کردیا جائے وہ ایک چڑھائی ہے یعنی کے گاڑی نیچے سے اوپر کی جانب جاتی ہے اور وہ بھی 120کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے۔ وادی جن میں اپنی اور اپنے پاس گاڑی کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے بھی اس تجربے کو آزمایا اور ایسا کرنے کے بعد اس وادی سے منسلک واقعات پر یقین رکھنے کے علاوہ میرے پاس بھی کوئی چارہ نہیں رہا۔ میرے ذاتی تجربے سے یہ بھی ثابت ہو ا کہ وادی جن پر آپ اس مخصوص جگہ پر کوئی بھی چیز رکھ دیں جیسے کہ میں نے اور میرے ساتھیوں نے پانی کو بہا یا تو وہ بھی خود بخود اوپر کی طرف بہنے لگ پڑا۔ یہاں وادی جن کے متعلق ایک اور بات بھی آپ کے علم میں لاتا چلوں کہ اگر آپ گاڑی کے انجن کو بند کئے بنا اس کو وہاں سے گزاریں گے تووہ 100کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زیادہ تیز نہیں چلے گی لیکن جب گاڑی کا انجن بند ہو اور اس کا گیئر نیوٹرل پر رکھا جائے تو وہ خود بخود 120کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے 14کلو میٹر کے فاصلے تک چلتی ہے۔وہاں کے مقامی لوگوں میں وادی جن کے حوالے سے مختلف باتیں زد عام ہیں کچھ کے نزدیک یہاں جنا ت رہتے ہیں جو کہ گاڑی یا وہاں پر رکھی کسی بھی چیز کو آگے کی طرف دھکیلتے ہیں اسی لئے اس وادی کو وادی جن کا نام دیا گیا ہے۔ اس مقام پر ذاتی تجربہ کرنے کے بعد اس سے جڑے واقعات اور اس کی پراسراریت پرمیرا یقین پختہ ہو گیا ہے۔ ------------------------- یہ بات مجھے کافی دوستوں نے مسیج میں لکھی ہے۔اور یہ ہی بات میرے کزن نے بھی اپنے ذاتی تجربے سے مجھے بتائی تھی۔کہ ہاں بالکل میں نے بھی گاڑی بند کردی تھی۔اور گاڑی خود بخود 120 کلومیڑ کی رفتار سے دوڑتی رہی۔ اب اس کی درست حقیقت سے میں بالکل ناواقف ہوں۔ ہاں آپ کو اس مقا م کے متعلق ایک حدیث ضرور بتاتاہوں۔ یہ مقام اصل میں وادی جن نہیں بلکہ وادی بیدا ہے۔ اس کا ذکر مسلم شریف کتاب الفتن: باب الخسف بالجیش الزی یوم البیت میں موجود ہے عبیداللہ بن قبطیہ سے مروی ہے کہ حارث بن ربیعہ اور عبداللہ بن صفوان حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے پاس گئے اور میں بھی ان کے ہمراہ تھا۔ انہوں نے ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے اس لشکر کے متعلق دریافت کیا جو زمین میں دھنسا دیا جائے گا اور یہ ان دنوں کی بات ہے جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ مکہ کے حاکم تھے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے: "ایک آدمی بیت اللہ میں پناہ لے گا تو ان کی طرف ایک لشکر بھیجا جائے گا جب وہ لشکر بیدا نامی جگہ پر پہنچے گا تو زمین میں دھنسا دیا جائے گا ۔ میں نے کہا: یارسول اللہ ! جو زبردستی اس لشکر کے ساتھ (مجبور ہو کر) شامل ہوا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا "وہ بھی لشکر کے ساتھ زمین میں دھنسا دیا جائے گا مگر روز قیامت اپنی نیت کے مطابق اٹھایا جائے گا۔ ابو جعفر فرماتے ہیں "بیدا مدینے کا ایک میدان ہے" ------------- اس سے ملتے جلتے اور بھی کئی مقامات دنیا میں موجود ہے انٹرنیٹ پر اس طرح کے 61 مقامات کی ایک فہرست بھی موجود ہے۔ جیسا کہ ایک روڈ کا تذکرہ میں نے اوپر کیا ہے۔ اور جس کی وڈیوبھی آپ نے دیکھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویسے آپ کا کیا خیال ہے اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی گاڑی نیچے سے اوپر کی جانب کسی طاقت کے استعمال کے بغیر جا سکتی ہے؟ کیا زمین میں کوئی مقناطیسی طاقت موجود ہو سکتی ہے؟ یا پھر اس سے بھی زیادہ کوئی شاندار وجہ ہو۔ جو آپ کے ذہن میں ہو؟ دلچسپ معلومات پیج سے وابستہ رہیں۔ کیونکہ یہ پیج آپ کے علم میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔

خوفو کا ہرم

0 comments
خوفو کا ہرم آج اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو اہرام مصر میں سے سب سے بڑے ہرم کے بارے میں اردو ڈائجسٹ سے ماخوذ آرٹیکل کے حوالےسے بتاتے ہیں جو کہ خوفو فرعون کا مقبرہ کہلاتا ہے۔ فرعون خوفو کے بارے میں تاریخ میں ملتا ہے کہ خوفو نہ تو جنگجو تھا اور نہ ہی فاتح۔ اس نے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کوئی خاص کام نہیں کیا۔ وہ قانون ساز یا عالم بھی نہیں تھا لیکن خوفو نے اس بات کا اہتمام ضرور کیا کہ ہزاروں سال گزر نے کے بعد جب ان گنت بادشاہوں اور شاہی خاندانوں کا نام مٹ جائے تو لوگ اِسے یاد رکھیں۔ اس نے ایک مقبرہ تعمیر کیا‘ ایسا پرشکوہ کہ انسانی ہاتھ اس سے بہتر شاید ہی کوئی دوسرا بناسکے۔ یہی شاہکار اِسے نقش دوام دے گیا۔ خوفو کا ہرم دریائے نیل کے مغربی کنارے سے پانچ میل دور الجزیزہ جیزہ (Giza) نامی گائوں کے قریب واقع ہے۔ یہ ہرم گویا ایک مصنوعی پہاڑ ہے۔ خوفو نے اسے ’’اخت‘‘ یعنی ’’عظیم الشان‘‘ کا نام دیا۔ یہ نام اس عمارت کی تعمیر کے پچاس صدیوں بعد بھی ہرم پر موزوں بیٹھتا ہے۔ خوفو کو تاریخ کا حصہ بنے پانچ ہزار سال گزر چکے۔ وہ مصر کا مشہور فرعون گزرا ہے۔ اس کا دور حکومت ۲۹۰۰سے ۲۸۷۵ قبل از مسیح رہا۔ مطلب یہ کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر کے وزیر کی حیثیت سے کام کیا تو یہ ہرم کافی قدیم ہو چکا تھا۔ وہ یقینا اس کے قریب سے گزرتے ہوئے اُسے دن کے وقت دمکتے اور رات کو ستاروں سے باتیں کرتے دیکھتے ہوں گے۔ ہرم کے قریب ایک معبد بھی تھا جہاں پروہت دن رات اس بادشاہ کی مناجات کیا کرتے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے دور میں یہ ہرم آج کی نسبت زیادہ اونچا تھا۔ کیونکہ گزشتہ صدیوں میں اس ہرم کے پتھرقلعہ قاہرہ اور محل تعمیر کرنے میں استعمال کر لیے گئے۔ نرم چونے کے پتھروں یا پالش کیے ہوئے گرینائٹس نے اس کی بالائی سطح کو ڈھکا ہوا تھا لیکن اب ان کابھی وجود باقی نہیں۔ اس کی ٹوٹی پھوٹی سطح اب بھی متاثر کن ہے۔ ماضی میں ہرم۴۸۱ فٹ بلند تھا۔ اب اس کی بلندی ۴۵۵ فٹ رہ گئی ہے۔ اس کے نچلے حصے کی چوڑائی ایک سے دوسرے کونے تک ۵۶ فٹ ہے۔ اس کا رقبہ ساڑھے بارہ ایکڑ ہے۔ اس کی تعمیر میں پتھر کے ۲۳ لاکھ بلاک استعمال کیے گئے۔ ہر پتھر کا وزن اڑھائی ٹن کے قریب ہے۔ وقت اور انسان کے ہاتھوں شکست و ریخت کے باوجود اس کا رقبہ ۸ کروڑ ۵۰ لاکھ مربع فٹ تک پہنچتا ہے۔ یہ دیوہیکل عمارت کوئی مندر نہیں کہ دیو تائوں کی عظمت کا ثبوت پیش کرے۔ یہ شاہی دربار یا دفاعی نوعیت کی عمارت بھی نہیں‘ صرف ایک مقبرہ ہے۔ پھر بھی خوفو اپنے محل کی کھڑکیوں سے اسے تعمیر ہوتا دیکھ کر یقینا بہت خوش ہوتا ہو گا۔ تاہم خوشی کی وجہ یہ نہیں تھی کہ فن تعمیر کی محبت نے اسے یہ عظیم عمارت بنانے پر اکسایا ‘بلکہ اس کو بنانے سے اسے احساس تحفظ ملا۔ یہ تحفظ کسی عام دشمن سے نہیں تھا کیونکہ اس کی افواج شام یا عرب سے حملہ آور ہونے والے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی تھیں۔ لیکن ایک دشمن ایسا تھا جس کے خلاف کوئی ڈھال کارگر نہ تھی۔ جسے بڑے سے بڑا عظیم لشکر بھی شکست نہیں دے سکتا تھا… اور وہ دشمن موت تھی۔اُسے بخوبی علم تھا کہ سب انسانوں کی طرح فرعون بھی فانی ہیں۔ وہ دن قریب ہے جب اس کی تمام شان و شوکت اور جاہ و جلال ختم ہو گا اور وہ محض ایک لاش بن جائے گا۔ لیکن وہ موت کو بھی شکست دینا چاہتا تھا۔ اُسے دھوکا دینے کا ایک طریقہ تھا۔ مقدس کتابیں اس کے بارے میں بتاتی تھیں۔ یہ فارمولا چند پروہتوں کو معلوم تھا… ایسے گُر جو اتنے کارگرتھے کہ ان کی مدد سے رو ح کو جسم سے نکلنے کے بعد محفوظ کیا جا سکتا تھا۔ قدیم مصر کی دینیات عجیب و غریب ہے جسے اس کی تمام تر پیچیدگیوں اور گہرائیوں کے ساتھ شاید کبھی نہ سمجھا جا سکے۔ مصریوں کاعقیدہ تھا کہ جب تک کسی چیز کا جسم محفوظ ہے‘ تب تک دیوتا روح کو سورج کے نیچے زندہ رہنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اسی لیے فرعون اور دوسرے عظیم لوگ اپنی لاش کو گلنے سڑنے سے بچانے کی بھرپور کوششیں کرتے۔ اس سلسلے میں عجیب و غریب طریقے استعمال کیے جاتے۔ بعدازاں لاش کو ایسی جگہوں پر چھپا دیا جاتا جہاں اس کا سراغ نہ لگایا جا سکے۔ اہرام کی تعمیر کے عظیم دور میں یہ رسم تھی کہ ہرم کے وسط میں فرعون کی لاش ایسے کمرے میں رکھتے جسے ایک چٹان تراش کر بنایا جاتا۔ اپنے مقبرے کی تعمیر ہر بادشاہ کی بنیادی دلچسپی بن جاتی۔ وہ بادشاہ بنتے ہی اس کی تعمیر شروع کرتا اور اپنے دور حکومت میں جاری رکھتا۔ اس کی خواہش ہوتی کہ ہرم کی تعمیر کا کام اپنی زندگی ہی میں مکمل ہو جائے۔ یوں اُسے ابدی آرام کی جگہ مل سکتی تھی جہاں اس کا وجود کسی نہ کسی طرح باقی رہتا۔ جب فرعون مرتا تو اس کی لاش کو ممی بنانے والے گروہ کے حوالے کر دیا جاتا۔ وہ مقدس فارمولے کے مطابق یہ کام انجام دیتا۔ لاش دفنا تے وقت مختلف رسومات ادا کی جاتیں۔ اس موقع پر قدیم مصری دیوتا اور سیرس کی عبادت ہوتی جسے قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کے مطابق جو جادوئی عمل کے ذریعے زندہ ہو گیا تھا۔مصریوں کا اعتقادتھا، پھر وہ ان لوگوں کو زندگیاں دینے لگا جو اس کی عبادت کرتے اور جن کی ممی ایک خاص طریقے سے بنائی جاتی۔ ممی کو ایک سرنگ کے ذریعے ہرم کے اندر بنائے گئے کمرے تک پہنچایا جاتا۔ لاش کوسنگی تابوت میں رکھا جاتا۔ اس کے ساتھ کھانا، پانی، نہانے دھونے کا سامان، جادو کی چھڑی اور دشمنوں و سانپوں سے بچانے کے ٹوٹکے رکھے جاتے۔ پھر گہری سرنگ کو ریت اور بجری سے اس طرح بھرا جاتا کہ کوئی اس کا سراغ نہ لگا سکے۔ خوفو نے اپنی حکومت کے ابتدائی دور ہی میں عظیم ہرم کی تعمیر کا حکم دیا اور حکومت کی کل آمدن کو اس واحد مقصد کی تکمیل پر لگا ڈالا۔ یہ مقصد کیا تھا؟ دنیا کی عظیم ترین عمارت تلے ایک چھوٹے سے کمرے میں ممی بن کر ختم ہوجانا، جب کہ روح دنیا کی بھول بھلیوں میں بھٹکتی پھرے۔ خوفو کی موت کے دو ہزار سال بعد عظیم یونانی مورخ‘ ہیروڈوٹس نے مصر کا سفر کیا۔ اس نے پروہتوں سے خوفو کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں۔ پروہتوں نے بتایا کہ خوفو ایک مکار انسان تھا جس نے تاج و تخت سنبھالتے ہی دیو تائوں کے سامنے ہونے والی تمام قربانیاں بند کرا دیں اور معبدوں پر تالے ڈلوا دیے۔ پھر لاکھوں لوگوں کو اپنے مقبرے کی تعمیر کے لیے جبری بھرتی کر لیا۔ مقبرے پر کام کرنے والے ایک لاکھ مزدور دس دس ہزار کے گروہوں یاجتھوں کی شکل میں کام کرتے۔ ہر گروہ ایک وقت میں تین ماہ کام کرتا۔ پتھروں کو ہرم تک لانے پر دس سال صرف ہوئے۔پتھروں کی کانیں دریائے نیل کے دوسری طرف واقع تھیں۔ بڑے بڑے پتھروں کو سڑک کے ذریعے دریا تک لایا جاتا۔ سیلاب آتا تو مزدور انھیں کشتیوں سے اس چٹان کے قریب پہنچاتے جہاں ہرم کی تعمیر جاری تھی ۔ پتھر پھر اُن سیڑھیوں کے ذریعے اوپر لے جائے جاتے جن کی تعمیر پر بجائے خود دس سال کا عرصہ لگاتھا۔ وہ بھی عظیم ہرم کی طرح حیران کن تھیں۔ یوں پتھر اس سطح مرتفع تک پہنچ جاتے جہاں ہرم کی تعمیر ہونا تھی۔ ہرم کی تعمیر میں بیس سال کا عرصہ صرف ہوا۔ اسے تین فٹ لمبائی کے پالش کیے ہوئے پتھروں سے بنایا گیا۔ ان پتھروں کو اتنی نفاست سے جوڑا گیا کہ یہ جوڑ ایک انچ کے ہزارویں حصے تک درست ہیں۔ یہ یاد رہے ہرم خوفو کا شمار دنیا کے قدیم سات عجائبات عالم میں ہوتا ہے۔ اور یہ واحد عجوبہ ہے جو اب تک قائم و دائم ہے۔ یہ ۳۸۰۰ سال تک روئے ارض پہ انسان ساختہ بلند ترین عمارت رہی۔ جب تکہ کہ لندن میں۱۳۱۴ء میں اولڈپالزکیتھڈریل تعمیر نہ کر لیا گیا۔اس کی بلندی ۴۸۹خوفو کے عظیم مقبرے سے ہٹ کر اس کی ذات کے بارے میں ہمیں زیادہ معلوم نہیں۔ خیال ہے کہ وہ کسی بادشاہ کی اولاد نہیں تھا‘ بلکہ وسطی مصر کے ایک گھرانے سے اس کا تعلق تھا۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ وہ اپنے پیش رو، سن فیرو کے توسط سے اس مقام تک پہنچا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس نے ایک درباری یا جنگجو کی حیثیت سے تخت و تاج پر قبضہ کر لیا ۔ خوفو کے بارے میں اہم بات یہ ہے کہ اس نے مقبروں کا ایسا ڈیزائن روشناس کرایا جسے دوسروں نے بھی نقل کیا۔ وہ مقبرے نہیں بلکہ ہرم کے تکونے ڈیزائن کا بانی تھا۔اس کی یہ کامیابی تاریخ کا حصہ بن چکی۔ ماضی میں مشہور تھا کہ ہرم خوفو میں خزانے دفن ہیں۔ اسی لیے خلیفہ مامون الرشید نے اس میں سوراخ کرا کے اندر تک جانے کا راستہ تیار کرایا ۔لیکن جب وہ اس کمرے میں پہنچے جہاں فرعون کی لاش ہونی چاہیے تھی تو وہاں سرخ گرینائٹ کا تابوت چمک رہا تھا۔ اور حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اُس میں سے لاش غائب تھی۔ (تحریر جان کیننگ ترجمہ نوشین فریحہ اردو ڈائجسٹ)

آسیب زدہ مقامات

0 comments
آسیب زدہ مقامات دنیا میں کئی مقامات ایسے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آسیب زد ہ ہیں جس کی وجہ سے انسان وہاں جانے سے بھی گھبراتے ہیں،اپنے دلچسپ معلوما ت پیج کے دوستوں کوایسے پانچ مقامات کے بارے میں بتاتے ہیں۔ (ماخوذ ڈیلی پاکستان) Pendle Hill, UK برطانیہ کے لنکا شائر میں واقع یہ علاقہ آسیب زدہ سمجھا جاتا ہے ، جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ یہاں مبینہ طور پر سن 1612میں جادوگرنیوں کا ٹرائل ہوا تھا۔کہا جاتا ہے کہ 12میں سے ایک جادوگرنی قیدمیں ہلاک ہوئی تھی جبکہ 10کو سزائے موت دی گئی تھی اور صرف ایک بے گناہ پائی گئی تھی۔اس کے بعد مشہور ہوگیا کہ اس جگہ ان جادگرنیوں کی روحیں لوگوں کو تنگ کرتی ہیں۔2009ءمیں ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران تین لوگ ایک دم شدید بیمار ہوگئے اور دوبارہ یہاں شوٹنگ نہ کی گئی۔ Aokigahara Forest, Japan ماﺅنٹ فوجی کے قریب واقع یہ قدیم جنگل خودکشی کرنے کے لئے دنیا کی دوسری بڑی جگہ ہے۔1950ءسے اب تک 500سے زائد افراد نے یہاں خودکشی کی ہے جس کی وجہ سے اسے ’خودکشی کا جنگل‘،’درختوں کا دریا‘ اور ’آسیب زدہ جنگل‘بھی کہا جاتا ہے۔جاپانی روایات کے مطابق یہ جنگل بدروحوں سے بھرا پڑا ہے جنہیں جاپانی زبان میں yureiکہا جاتا ہے۔بہت زیادہ گھنا ہونے کی وجہ سے یہا ں آنے والے بھٹک بھی جاتے ہیں اور کئی لوگوں نے درختوں سے جھولتی لاشوں کے بارے میں بھی بتایا ہے۔ Poveglia Island, Italy چودھویں صدی میں جب طاعون اور سیاہ بخار عام ہوا تو متاثرہ لوگوں کو مرنے کے لئے اس جزیرے پر چھوڑ دیا جاتاتھا۔وینس کے قریب واقع اس جزیرے سے پراسرار چیخوں کی آوازیں بھی سنی جاتی ہیں۔ Paris Catacombs, France زیر زمین سرنگوں کے اس علاقے کی تاریخ دوہزار سال پرانی ہے اور یہاں ہزاروں انسانی ڈھانچے بھی پائے گئے ہیں۔جب پیرس میں قبرستان مکمل طور پر بھر گئے تو قبریں کھود کر ڈھانچوں کو ان سرنگوں میں منتقل کردیا گیا۔یہاں آنے والے سیاحوں کا کہنا ہے کہ انہیں روحوں کا لمس بھی محسوس ہوتا ہے۔ Hoia-Baciu Forest, Romania اس جگہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے زیادہ آسیب زدہ جنگل ہے۔Cluj-Napocaکے پاس واقع اسے رومانیہ کا ’برمودہ ٹرائی اینگل‘بھی کہاجاتا ہے ۔

فون نمبروں کے بارے دلچسپ حقائق

0 comments
ماضی میں انسان اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے رابطے کیلئے مختلف طریقے استعمال کرتارہا، الیگزینڈر گراہم بیل نے 2 جون 1875ءکو ٹیلی فون ایجاد کرکے انسان کو آواز کے ذریعے ایک دوسرے کے حال احوال سے باخبر رہنے اور اپنے حال احوال سے آگاہ کرنے کے قابل بنادیا۔ فون نمبروں کی ایجاد سمیت ان کے بارے میں 10 ایسے حقائق جن سے آپ اس سے پہلے شاید واقف نہیں ہوں گے۔ فون نمبر کی ایجاد: فون نمبر ایجاد کئے جانے سے پہلے فون کالیں فون کے مالک کے نام کے ذریعے کی جاتی تھیں جس شخص نے کسی کو کال کرنا ہوتی وہ ایکسچینج میں موجود آپریٹر کو اپنے مطلوبہ شخص کا نام بتاتا، آپریٹر اپنے سامنے موجود بہت سی ٹیلی فون لائنوں میں سے ایک لائن کے ذریعے اس شخص سے کال ملادیتا۔ ٹیلی فون کے موجد الیگزینڈر گراہم بیل کے دوست ڈاکٹر موسس نے فون نمبروں کی ایجاد میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی ایسا طریقہ اختراع کیا جائے کہ لوگ ہنگامی حالت میں آپریٹر کی مدد کے بغیر مطلوبہ شخص سے جلد رابطہ کرسکیں۔ چنانچہ ٹیلی فون رکھنے والوں کے ناموں کی بجائے ہر شخص کے لئیے مخصوص نمبر مختص کیا گیا۔ ٹیلی فون نمبر پہلی بار امریکہ کے شہر لوویل میں 1879ءسے 1880ءکے درمیانی عرصے میں استعمال کئے گئے۔ یہ نظام اتنا پسند کیا گیا اور اتنا کارآمد ثابت ہوا کہ اسے آج بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پہلا تجارتی ٹیلی فون ایکس چینج: 28 جنوی 1878ءکو امریکہ کے شہر نیوہیومن کی بورڈمین بلڈنگ میں دنیا کا پہلا تجارتی ٹیلی فون ایکس چینج قائم کیا گیا تھا۔ اسے ڈسٹرکٹ ٹیلی فون کمپنی آف نیوہیومن کا نام دیا گیا تھا۔ تجارتی ٹیلی فون ایکس چینج کا تصور امریکہ کی خانہ جنگی میں حصہ لینے والے ایک سابق فوجی اور ٹیلی گراف آفس کے منیجر جارج کوائے اور ان کے دو ساتھیوں ہیرک فراسٹ اور والٹر لیوس نے پیش کیا تھا۔ گھومنے والا ڈائل: 1875ءمیں ٹلی فون کی ایجاد کے بعد سے ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ ٹیلی فون پر رابطے کا تیز رفتار نظام وضع کیا جائے۔ آخر 1891ءمیں ایلمن براؤ سٹروگر نے ٹیلی فون کا ڈائل ایجاد کیا۔ ڈائل والا پہلا فون 1892ءمیں استعمال کیا گیا۔ ٹیلی فون کی پیڈ: بیل لیبارٹریز کے جان ای کارلن نے ٹیلی فون کاکی پیڈ ایجاد کیا تھا۔ کی پیڈ میں اعداد اور نشانات تین عمودی اور چار افقی خطوط میں ترتیب دئیے جاتے ہیں جس کے نچلے دائیں کونے میں ”ہیش کی“ اور نچلے بائیں کونے میں سٹار یا ”ایسٹیرسک کی“ ہوتی ہیں۔ آٹو میٹک ٹیلی فون ایکس چینج 99 لائنوں والا پہلا آٹو میٹک ٹیلی فون ایکس چینج امریکہ کی ریاست انڈیانا کے شہر لاپورٹے میں نصب کیا گیا تھا۔ ایریا کوڈ اگرچہ ایریا کوڈ کا تصور بیسویں صدی کے پانچویں عشرے میں پیش کیا گیا تھا لیکن اس کا باقاعدہ اجرا و آغاز 1951ءمیں امریکہ کی ریاست نیو جرسی کے لئے ایریا کوڈ متعارف کروانے سے ہوا، نیوجرسی کا ایریا کوڈ 201 ہے۔ ہنگامی نمبر ہنگامی نمبر تین یا چار اعداد پر مشتمل ہوتے ہیں تاکہ لوگ انہیں آسانی سے یاد رکھ سکیں اور ہنگامی ضرورت کے وقت تیزی اور آسانی سے ڈائل کرسکیں۔ انہیں کسی ملک کے کسی بھی حصے کے رہنے والے لوگ ہنگامی ضرورت کے وقت استعمال کرسکتے ہیں۔ انہیں یونیورسل ایمرجنسی ٹیلی فون نمبر بھی کہا جاتا ہے۔ ہنگامی نمبروں کا نظام بھی امریکہ میں وضع کیا گیا تھا جس کے کامیاب ہونے کے بعد دنیا کے دوسرے ملکوں نے بھی یہ نظام اپنالیا۔ مہنگاترین فون نمبر دنیا کا سب سے زیادہ قیمت پر فروخت ہونے وال سیل فون نمبر 6666666 ہے۔ اسے خیراتی مقصد سے قطر میں فروخت کیا گیا تھا۔ اس نمبر کے خریدار نے اس کے لئے 27 لاکھ ڈالر کی سرچکرادینے والی رقم ادا کی تھی۔ چین میں نمبر 88888888 دو لاکھ اسی ہزار ڈالر میں فروخت ہوا تھا۔ فلموں میں استعمال ہونے والے تخیلاتی ٹیلی فون نمبر امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں نے فلموں میں استعمال کے لئے فرضی ٹیلی فون نمبر وضع کئے ہیں۔ امریکی فلموں کے کرداروں کے ٹیلی فون نمبر 555 سے شروع ہوتے ہیں تاہم بعض فلم سازوں نے اس اصول سے انحراف کرتے ہوئے اپنی فلموں کے کرداروں کو اصل فون نمبروں سے مماثل فون نمبر استعمال کرتے دکھایا ہے۔ فون نمبر میجک ٹرک ریاضی خشک علم تو ہے مگر اس کے اصول استعمال کرتے ہوئے بہت سے دلچسپ کھیل بھی ایجاد کئے جاچکے ہیں۔ ٹیلی فون نمبروں کے ضمن میں بھی ایک میجک ٹرک موجود ہے جو کچھ یوں ہے: کوئی بھی سات اعداد والا ٹیلی فون نمبر لیجئے۔ مثال کے طور پر 9417990 لیجئے۔ اس کے پہلے تین اعداد کو 80 سے ضرب دیجئے۔ جو حاصل آئیے اس میں ایک جمع کیجئے۔ حاصل جمع کو 250 سے ضرب دیجئے۔ حاصل ضرب میں اصل فون نمبر کے آخری چار اعداد جمع کیجئے۔ اس کے بعد آخری چار اعداد دوبارہ جمع کیجئے۔ حاصل جمع میں سے 250 نفی کردیجئے۔ اور باقی بچنے والے اعداد کو 2 سے تقسیم کردیجئے۔ آپ کے سامنے وہی نمبر ہوگا جو آُ پ نے ابتدا میں منتخب کیا تھا۔

تین سوال تین مقاصد

0 comments
تین سوال تین مقاصد

بادشاہ کا موڈ اچھا تھا‘ وہ نوجوان وزیر کی طرف مڑا اور مسکرا کر پوچھا ”تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے“ وزیر شرما گیا‘ اس نے منہ نیچے کر لیا‘ بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور بولا ”تم گھبراﺅ مت‘ بس اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش بتاﺅ“ وزیر گھٹنوں پر جھکا اور عاجزی سے بولا ”حضور آپ دنیا کی خوبصورت ترین سلطنت کے مالک ہیں‘ میں جب بھی یہ سلطنت دیکھتا ہوں تو میرے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے اگر اس کا دسواں حصہ میرا ہوتا تو میں دنیا کا خوش نصیب ترین شخص ہوتا“ وزیر خاموش ہو گیا‘ بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور بولا ”میں اگر تمہیں اپنی آدھی سلطنت دے دوں تو؟“ وزیر نے گھبرا کر اوپر دیکھا اور عاجزی سے بولا ”بادشاہ سلامت یہ کیسے ممکن ہے‘ میں اتنا خوش قسمت کیسے ہو سکتا ہوں“ بادشاہ نے فوراً سیکرٹری کو بلایا اور اسے دو احکامات لکھنے کا حکم دیا‘ بادشاہ نے پہلے حکم کے ذریعے اپنی آدھی سلطنت نوجوان وزیر کے حوالے کرنے کا فرمان جاری کر دیا‘ دوسرے حکم میں بادشاہ نے وزیر کا سر قلم کرنے کا آرڈر دے دیا‘ وزیر دونوں احکامات پر حیران رہ گیا‘ بادشاہ نے احکامات پر مہر لگائی اور وزیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ”تمہارے پاس تیس دن ہیں‘ تم نے ان 30 دنوں میں صرف تین سوالوں کے جواب تلاش کرنا ہیں‘ تم کامیاب ہو گئے تو میرا دوسرا حکم منسوخ ہو جائے گا اور تمہیں آدھی سلطنت مل جائے گی اور اگر تم ناکام ہو گئے تو پہلا حکم خارج سمجھا جائے گا اور دوسرے حکم کے مطابق تمہارا سر اتار دیا جائے گا“ وزیر کی حیرت پریشانی میں بدل گئی‘ بادشاہ نے اس کے بعد فرمایا ”میرے تین سوال لکھ لو“ وزیر نے لکھنا شروع کر دیا‘ بادشاہ نے کہا ”انسان کی زندگی کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟“ وہ رکا اور بولا ”دوسرا سوال‘ انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے“ وہ رکا اور پھر بولا ”تیسرا سوال‘ انسان کی زندگی کی سب سے بڑی کمزوری کیا ہے“ بادشاہ نے اس کے بعد نقارے پر چوٹ لگوائی اور بآواز بلند فرمایا ”تمہارا وقت شروع ہوتا ہے اب“
وزیر نے دونوں پروانے اٹھائے اور دربار سے دوڑ لگا دی‘ اس نے اس شام ملک بھر کے دانشور‘ ادیب‘ مفکر اور ذہین لوگ جمع کئے اور سوال ان کے سامنے رکھ دیئے‘ ملک بھر کے دانشور ساری رات بحث کرتے رہے لیکن وہ پہلے سوال پر ہی کوئی کانسینسس ڈویلپ نہ کر سکے‘ وزیر نے دوسرے دن دانشور بڑھا دیئے لیکن نتیجہ وہی نکلا‘ وہ آنے والے دنوں میں لوگ بڑھاتا رہا مگر اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا یہاں تک کہ وہ مایوس ہو کر دارالحکومت سے باہر نکل گیا‘ وہ سوال اٹھا کر پورے ملک میں پھرا مگر اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا‘ وہ مارا مارا پھرتا رہا‘ شہر شہر‘ گاﺅں گاﺅں کی خاک چھانتا رہا‘ شاہی لباس پھٹ گیا‘ پگڑی ڈھیلی ہو کر گردن میں لٹک گئی‘ جوتے پھٹ گئے اور پاﺅں میں چھالے پڑ گئے‘ یہاں تک کہ شرط کا آخری دن آ گیا‘ اگلے دن اس نے دربار میں پیش ہونا تھا‘ وزیر کو یقین تھا یہ اس کی زندگی کا آخری دن ہے‘ کل اس کی گردن کاٹ دی جائے گی اور جسم شہر کے مرکزی پُل پر لٹکا دیا جائے گا‘ وہ مایوسی کے عالم میں دارالحکومت کی کچی آبادی میں پہنچ گیا‘ آبادی کے سرے پر ایک فقیر کی جھونپڑی تھی‘ وہ گرتا پڑتا اس کٹیا تک پہنچ گیا‘ فقیر سوکھی روٹی پانی میں ڈبو کر کھا رہا تھا‘ ساتھ ہی دودھ کا پیالہ پڑا تھا اور فقیر کا کتا شڑاپ شڑاپ کی آوازوں کے ساتھ دودھ پی رہا تھا‘ فقیر نے وزیر کی حالت دیکھی‘ قہقہہ لگایا اور بولا ”جناب عالی! آپ صحیح جگہ پہنچے ہیں‘ آپ کے تینوں سوالوں کے جواب میرے پاس ہیں“ وزیر نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا ”آپ نے کیسے اندازہ لگا لیا‘ میں کون ہوں اور میرا مسئلہ کیا ہے“ فقیر نے سوکھی روٹی کے ٹکڑے چھابے میں رکھے‘ مسکرایا‘ اپنا بوریا اٹھایا اور وزیر سے کہا ”یہ دیکھئے‘ آپ کو بات سمجھ آ جائے گی“ وزیر نے جھک کر دیکھا‘ بوریئے کے نیچے شاہی خلعت بچھی تھی‘ یہ وہ لباس تھا جو بادشاہ اپنے قریب ترین وزراءکو عنایت کرتا تھا‘ فقیر نے کہا ”جناب عالی میں بھی اس سلطنت کا وزیر ہوتا تھا‘ میں نے بھی ایک بار آپ کی طرح بادشاہ سے شرط لگانے کی غلطی کر لی تھی‘نتیجہ آپ خود دیکھ لیجئے“ فقیر نے اس کے بعد سوکھی روٹی کا ٹکڑا اٹھایا اور دوبارہ پانی میں ڈبو کر کھانے لگا‘ وزیر نے دکھی دل سے پوچھا ”کیا آپ بھی جواب تلاش نہیں کر سکے تھے“ فقیر نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ”میرا کیس آپ سے مختلف تھا‘ میں نے جواب ڈھونڈ لئے تھے‘ میں نے بادشاہ کو جواب بتائے‘ آدھی سلطنت کا پروانہ پھاڑا‘ بادشاہ کو سلام کیا اور اس کٹیا میں آ کر بیٹھ گیا‘ میں اور میرا کتا دونوں مطمئن زندگی گزار رہے ہیں“ وزیر کی حیرت بڑھ گئی لیکن یہ سابق وزیر کی حماقت کے تجزیئے کا وقت نہیں تھا‘ جواب معلوم کرنے کی گھڑی تھی چنانچہ وزیر اینکر پرسن بننے کی بجائے فریادی بن گیا اور اس نے فقیر سے پوچھا ”کیا آپ مجھے سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں“ فقیر نے ہاں میں گردن ہلا کر جواب دیا ”میں پہلے دو سوالوں کا جواب مفت دوں گا لیکن تیسرے جواب کےلئے تمہیں قیمت ادا کرنا ہو گی“ وزیر کے پاس شرط ماننے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا‘ اس نے فوراً ہاں میں گردن ہلا دی‘فقیر بولا ”دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے‘ انسان کوئی بھی ہو‘ کچھ بھی ہو‘ وہ اس سچائی سے نہیں بچ سکتا“ وہ رکا اور بولا ”انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے‘ ہم میں سے ہر شخص زندگی کو دائمی سمجھ کر اس کے دھوکے میں آ جاتا ہے“ فقیر کے دونوں جواب ناقابل تردید تھے‘ وزیر سرشار ہو گیا‘ اس نے اب تیسرے جواب کےلئے فقیر سے شرط پوچھی‘ فقیر نے قہقہہ لگایا‘ کتے کے سامنے سے دودھ کا پیالہ اٹھایا‘ وزیر کے ہاتھ میں دیا اور کہا ”میں آپ کو تیسرے سوال کا جواب اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک آپ یہ دودھ نہیں پیتے“ وزیر کے ماتھے پر پسینہ آ گیا ‘ اس نے نفرت سے پیالہ زمین پر رکھ دیا‘ وہ کسی قیمت پر کتے کا جوٹھا دودھ نہیں پینا چاہتا تھا‘ فقیر نے کندھے اچکائے اور کہا ”اوکے تمہارے پاس اب دو راستے ہیں‘ تم انکار کر دو اور شاہی جلاد کل تمہارا سر اتار دے یا پھر تم یہ آدھ پاﺅ دودھ پی جاﺅ اور تمہاری جان بھی بچ جائے اور تم آدھی سلطنت کے مالک بھی بن جاﺅ‘ فیصلہ بہرحال تم نے کرنا ہے“ وزیر مخمصے میں پھنس گیا‘ ایک طرف زندگی اور آدھی سلطنت تھی اور دوسری طرف کتے کا جوٹھا دودھ تھا‘ وہ سوچتا رہا‘ سوچتا رہا یہاں تک کہ جان اور مال جیت گیا اور سیلف ریسپیکٹ ہار گئی‘ وزیر نے پیالہ اٹھایا اور ایک ہی سانس میں دودھ پی گیا‘ فقیر نے قہقہہ لگایا اور بولا ”میرے بچے‘ انسان کی سب سے بڑی کمزوری غرض ہوتی ہے‘ یہ اسے کتے کا جوٹھا دودھ تک پینے پر مجبور کر دیتی ہے اور یہ وہ سچ ہے جس نے مجھے سلطنت کا پروانہ پھاڑ کر اس کٹیا میں بیٹھنے پر مجبور کر دیا تھا‘ میں جان گیا تھا‘ میں جوں جوں زندگی کے دھوکے میں آﺅں گا‘ میں موت کی سچائی کو فراموش کرتا جاﺅں گا اور میں موت کو جتنا فراموش کرتا رہوں گا‘ میں اتنا ہی غرض کی دلدل میں دھنستا جاﺅں گا اور مجھے روز اس دلدل میں سانس لینے کےلئے غرض کا غلیظ دودھ پینا پڑے گا لہٰذا میرا مشورہ ہے‘ زندگی کی ان تینوں حقیقتوں کو جان لو‘ تمہاری زندگی اچھی گزرے گی“ وزیر خجالت‘ شرمندگی اور خودترسی کا تحفہ لے کر فقیر کی کٹیا سے نکلا اور محل کی طرف چل پڑا‘ وہ جوں جوں محل کے قریب پہنچ رہا تھا اس کے احساس شرمندگی میں اضافہ ہو رہا تھا‘ اس کے اندر ذلت کا احساس بڑھ رہا تھا‘ وہ اس احساس کے ساتھ محل کے دروازے پر پہنچا‘ اس کے سینے میں خوفناک ٹیس اٹھی‘ وہ گھوڑے سے گرا‘ لمبی ہچکی لی اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
(جاوید چودھری کے کالم سے اقتباس)

Tuesday, May 10, 2016

ہواکاچینا نخلستان دلچسپ حقائق

0 comments
ہواکاچینا نخلستان دلچسپ حقائق
نخلستان صحرا میں موجود ایسے مقام کو کہا جاتا ہے جہاں پودوں کے ساتھ ساتھ پانی کا وجود بھی ہوتا ہے- دنیا بھر میں لاتعداد انتہائی پرکشش اور خوبصورت نخلستان موجود ہیں اور انہی میں سے ایک ہے پیرو کا Huacachina نامی نخلستان- اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو اس کے بارے کچھ دلچسپ معلومات فراہم کرتے ہیں
1۔ یہ سرمئی رنگ کی ریت کا حامل نخلستان جنوبی پیرو کے شہر Ica سے 8 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے-
...
2۔ اس نخلستان میں ایک چھوٹی سی قدرتی جھیل بھی موجود ہے جو کہ سینکڑوں فٹ بلند ریت کے ٹیلوں کے درمیان گھری ہوئی ہے-
3۔ یہ مقام دیکھنے میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی دور دراز کا علاقہ ہو لیکن حقیقت میں یہ نخلستان پیسیفک ساحل سے صرف ایک گھنٹے کی دوری پر واقع ہے-
4۔ یہ ایک سیاحتی مقام ہے جہاں قریبی شہر" اکا" کے امیر کبیر خاندان تفریح کے غرض سے آتے ہیں جبکہ یہاں موجود بلند و بالا ریت کے ٹیلوں کو دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے لوگ یہاں آتے ہیں-
5۔ بنیادی طور پر یہ نخلستان ریزورٹس اور ریسٹورنٹس کا ایک مجموعہ ہے جو کہ نیلے سبز رنگ کے پانی حامل جھیل کے گرد واقع ہیں اور اسی جھیل کے گرد تقریباً 100 افراد مستقل رہائش بھی اختیار کیے ہوئے-
6۔ ان افراد کی آمدنی کا دارومدار یہاں آنے والے سیاحوں پر ہے جنہیں یہ لوگ مختلف اقسام کی سہولیات فراہم کرتے ہیں-
7۔ اس نخلستان کی آرائش و زیبائش 1940 اور 1950 کے درمیان کی گئی جبکہ 1990 میں مہمات کے ذریعے سیاحتی کو فروغ دیا گیا- اور آج یہ sandboarding اور dunebuggy کی سواری کے لیے ایک اعلیٰ مقام سمجھا جاتا ہے-
8۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے جھیل کے پانی کی سطح میں تیزی سے کمی واقع ہوتی جارہی ہے- اور گزشتہ چند سے سالوں سے جھیل کو خشک ہونے سے بچانے کے لیے دیگر ذرائع کی مدد سے جھیل کو پانی مہیا کیا جارہا ہے-
9۔ جھیل میں پانی کی کمی کی وجہ اس نخلستان کے قرب و جوار رہنے والے افراد کی جانب سے بنائے جانے والے کنویں ہیں- اس طرح یہ لوگ زیرِ زمین موجود پانی تک رسائی حاصل کرتے ہیں جس کی وجہ سے جھیل خشک ہوتی جارہی ہے-
10۔ “ امریکہ کا نخلستان “ کہلانے والا یہ مقام شمالی اور جنوبی امریکہ کے باقی رہ جانے والے چند نخلستانوں میں سے ایک ہے

Monday, May 9, 2016

شطرنج کی کہانی

0 comments
شطرنج کی کہانی


(دوبارہ)

شطرنج کی ایجاد کے متعلق ایک کہانی بیان کی جاتی ہے۔ جو کافی دلچسپ اور حیران کن ہے آئیے اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو اس کے بارے میں بتاتے ہیں۔ یہ میں نے ایک انگریزی ویب سائٹ سے لیکر اس کا اردو ترجمہ کیا ہے۔ لیکن اس کے حقیقی ہونے کے بارے میں تصدیق نہیں کی جاسکتی۔ کیونکہ بعض ماہرین کے مطابق شطرنج کا کھیل سب سے پہلے چین میں ایجاد ہواتھا۔ اور بعض اس کی ایجاد کا کریڈٹ کچھ دوسرے ممالک کو بھی دیتے ہیں۔ بہرحال سب سے مشہور یہ ہی ہے کہ شطرنج کا کھیل چھٹی صدی عیسوی میں ہندوستان میں ہی ایجاد ہوا۔ اور مسلمانوں کی ہندوستان میں فتوحات کے ساتھ ہی عرب دنیا میں یہ کھیل پہنچا اور بعض ازاں پوری دنیا میں یہ کھیل مشہور ہوا۔

بہرحال شطرنج کی ایجاد کی کہانی کچھ یوں بیان کی جاتی ہے۔

چحٹی صدی عیسوی میں بھارت میں ایک بادشاہ رہتا تھا۔وہ کھیل کھیلنےسے بہت زیادہ شغف رکھتا تھا۔وہ تمام پرانے کھیلوں سے بور ہوچکا تھا وہ کوئی نیا کھیل چاہتا تھاجو کہ بہت زیادہ چلنج والا ہو۔اس نے پوری ریاست میں اعلان کر دیا کہ جو کوئی اس کو نیا کھیل بنا کردےگا جس کو کھیلنے میں صلاحیت اور دماغ کی ضرورت ہو تو اس کو منہ مانگا انعام دیا جائے گا۔بہت سے لوگوں نے بادشاہ کو مختلف کھیل پیش کئے لیکن بادشاہ مطمئن نہیں ہوا کیوں کہ وہ کوئی مشکل اور چیلنج والا کھیل چاہتاتھا۔آخر ساتھ والی ریاست سے ایک غریب ریاضی دان جسکا نام (شاید) چترنگا تھا۔ اس نے بادشاہ کے سامنے ایک کھیل پیش کیا جسکا اس نے نام چترنگ بتایا۔جو کہ اب بگڑ کر شطرنج ہوگیا ہے۔اس میں دو فوجوں کو آمنے سامنے کرکے ایک بورڈ کے اوپر کھیلا جاتا ہے۔جسکے 64 خانے ہوتے ہیں۔ جس میں بادشاہ۔وزیر۔ہاتھی۔گھوڑا۔توپ۔پیادہ ہوتے ہیں۔ ہر کھلاڑی کی چالیں مختلف ہوتی ہیں۔ جس کا بادشاہ مارا جائے وہ ہار جاتا ہے۔بادشاہ اس دلچسپ کھیل کو دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اور اس نےاس غریب ریاضی دان سے اس کی خواہش پوچھی ۔ اس نے کہا میری صرف یہ خواہش ہے کہ آپ مجھے اس کھیل کے بورڈ کے پہلے خانے پر چاول کا ایک دانہ د ے دیں اور دوسرے خانے پر دو گنا یعنی 2دانے اور تیسرے خانے پر پچھلے خانے سے دگنا کردیں یعنی 4 دانے اسی طرح ہر خانے کو پچھلےخانے سےدگنا کرکے دے دیں۔بادشاہ نے کہا اتنی چھوٹی خواہش ۔ تم کوئی ہیرے جواہرات اور سونا چاند ی کیوں نہیں مانگتے۔ اس نے کہا میری بس یہ ہی خواہش ہے جس کو آپ پورا کردیں تو آپ کی نوازش ہوگی۔بادشاہ نے فورا اپنے درباریوں کو حکم دیا کہ اس کو اس کی خواہش کے مطابق چاول دے دیئے جائیں۔لیکن اگلے ہی دن اس کے درباری اور وہ غریب ریاضی دان دربار میں دوبارہ حاضر ہوئے اور درباریوں نے کہا بادشاہ سلامت ہم آپ کی پوری سلطنت کو بیچ کر بھی اس ریاضی دان کی خواہش پوری نہیں کر سکتے۔ بادشاہ نے جب حساب لگایا ۔تو بادشاہ اس ریاضی دان کی ذہانت پر حیران رہ گیا۔ کہ اس کی خواہش کو پورا کرنا واقعی ناممکن ہے۔ بادشاہ نے اس ذہین ریاضی دان کو اپنامشیر خاص بنا لیا۔ یہ کہانی ہوسکتا ہے سچ نہ ہو کیوں کہ بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ شطرنج کی پیدائش چین میں ہوئی۔لیکن چترنگ نامی کھیل ہندوستان کی تاریخی کتابوںمیں بہرحال ضرور ملتا ہے۔

اب آپ حساب لگائے کہ بادشاہ کو اس غریب ریاضی دان کو کتنے چاول کے دانے دینے پڑتے جو کہ ناممکن ہیں۔ اپنے جواب کمنٹس باکس میں لکھیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پراسرار طور پر پانچ جہازوں کا عملہ غائب ہوگیا

ٹام اینڈ جیری کارٹون میں چھپے زندگی کے دلچسپ اسباق

0 comments
ٹام اینڈ جیری کارٹون میں چھپے زندگی کے دلچسپ اسباق

ٹام اینڈ جیری بلا شعبہ دنیا کے مقبول ترین کارٹو ن ہیں جنہیں دنیا کے کروڑوں بچے روزانہ شوق سے دیکھتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کارٹونوں میں صرف بچوں کی تفریح ہی نہیں بلکہ بڑوں کے لیے زندگی کے چند اہم ترین سبق بھی ہیں ۔ اگر آپ نے کبھی ان پہلوؤں پر توجہ نہیں دی توآپ ان باتوں کو غور سے پڑھئے۔



1۔ سائز کی کو ئی اہمیت نہیں
آپ نے دیکھا ہوگا کہ ننھا جیری بڑی سی بلی ٹام کو کیسے تگنی کا ناچ نچاتا ہے ۔ بظاہر چھوٹا اور کمزور نظرآنے والا مخالف بہت مشکل ثابت ہو سکتا ہے لہذا کسی کی ظاہری حالت وصور ت کو دیکھ کر غلط اندازہ نہ لگائیں ۔

2۔ اتفاق ضروری ہے
اگرچہ ٹام اورجیر ی آپس میں ہمہ وقت لڑتے رہتے ہیں لیکن جب بھی کوئی تیسر ا دشمن سامنے آئے تو وہ متحد ہو جاتے ہیں

3۔ مل بانٹ کر کھائیں
محبت کرنے والوں میں لڑائیاں بھی ہو جاتی ہیں لیکن ان کی وجہ سے روٹھ کر منہ نہ پھیریں بلکہ اکھٹے رہیں اور ملکر لطف اندوز ہوں

4۔ اظہار محبت
ٹام کی محبت اظہار محبت کے لئے بھی بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔ کہ کیسے دوسروں سے اظہار محبت کرنا چاہئیے۔

5۔ ناکامی کامیابی کی بنیاد ہے
جیری ننھا ضرور ہے اور کمزور بھی لیکن کوئی ناکامی اسے مایو س نہیں کرتی اور بالا ٓخر وہ کامیاب ضرور ہوتا ہے

6۔ پر اعتماد رہیں
چاہے حالات کیسے بھی سخت اورمشکل ہوں اپنی ذات پر اعتما د رکھئے ۔

7۔ دوستی انمول تحفہ ہے
اگرچہ ٹام اور جیری کی لڑائیاں مثال بن چکی ہیں لیکن ان کی دوستی بھی ساتھ ساتھ چلتی ہے اور ان کے لیے حقیقی خوشی کا باعث بنتی ہے ۔

8۔ خوش رہئے
لڑائی جھگڑے اور نوک جھونک کے ساتھ خوش رہنا بھی ضروری ہے ۔

9۔ اعتبار کیجئے
اپنے پیاروں سے اختلاف اور ناراضگی کی وجہ سے ان پر اعتبار کبھی ختم نہ کریں ۔

10۔ پر عزم رہیں
مسائل سے گھبرا کر دلبرداشتہ نہ ہوں بلکہ ہمیسہ توانائی سے بھرپور رہیں اور پر موقعے اور ہر لمحے کی خوشی سے لطف اندوز ہوں ۔
(ماخوذ ڈیلی پاکستان)

گدھ کے بارے دلچسپ معلومات

0 comments
گدھ کے بارے دلچسپ معلومات
 آج اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو ایک مردار خور پرندے گدھ کے بارے میں معلومات دیتے ہیں۔ جو کہ ہمارے

پاکستان میں بھی باکثرت پائے جاتے ہیں۔

1۔ گدھ کو انگریزی میں وُلچر Vulture کہتے ہیں ۔
2۔ یہ مردہ خور پرندہ ہے جو بلند پرواز بھی کرتا ہے۔
3۔ گدھ کو دوگروپس میں تقسیم کیا گیا ہے۔
ایک گروپ میں کیلی فورنیا اور انڈین کانڈرس گدھ کو رکھا گیا ہے
تو دوسرے گروپ میں مردار خور گدھ کو شامل کیا گیا ہے جسے اولڈ ورلڈ ولچر کہتے ہیں
4۔ اولذ کر گروپ شمالی اور جنوبی امریکہ میں پایا جاتا ہے جبکہ آخری گروپ جسے اولڈ ورلڈ ولچر سے موسوم کیا گیا ہے یورپ ، افریقہ اور ایشیائی ممالک میں پایا جاتا ہے یہ ہندوستان کے ریگستانی، صحرائی اور پہاڑی علاقوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں۔



5۔مردار خور گدھ کی چونچ موٹی ، سخت اور سامنے مڑی ہوئی ہوتی ہے ۔ چونچ کے اوپر سانس لینے کیلئے دونوں جانب سوراخ ہوتے ہیں۔
6۔ مردار خور گدھ کا سر بھی ہوتا ہے سر کے کسی قدر نیچے کی جانب دونوں طرف آنکھیں ہوتی ہیں جو دو الگ اطراف میں دیکھنے میں مدد دیتی ہے۔
7۔ یہ ایک شکاری پرندہ ہے ۔کہا جاتا ہے کہ یہ عموماً صحت مند جانوروں پر حملہ یا شکار نہیں کرتے بلکہ بیمار اور لاغر جانوروں کو اپنا شکار بناتے ہیں۔
8۔ گدھ کے پنکھ یعنی پر بڑے ہوتے ہیں جو بلندی سے اترنے میں مدد کرتے ہیں۔
9۔ ان میں سونگھنے کی صلاحیت یعنی قوت شامہ بہت تیز ہوتی ہے۔ یہ گروپ کی شکل میں غذا کھاتے ہیں جب کسی جانور کی نعش دکھائی دیتی ہے تب گدھ کا جھنڈ وہاں اتر پڑتا ہے۔
10۔ یہ ایک ایسا پرندہ ہے جو مردار کے اندورنی اعضاء جیسے آنت ، جگر اور دل بھی شوق سے کھاتا ہے۔
11۔ اس پرندے کو بلندی پر مردار کی بو پہنچ جاتی ہے۔ جو کہ اس کے سونگھنے کی ایک بہترین صلاحیت ہے
12۔ جب گدھ غذا کھا لیتا ہے تو اسے ہضم کرنے کے لئے سو جاتا ہے یا نیم خوابیدہ کی حالت میں رہتا ہے۔
13۔ گدھ کو صفائی کرنے والا پرندہ کہا جاتا ہے یعنی جنگلوں میں مردار جانوروں کو یہ پرندے تھوڑی دیر میں ہی چٹ کر جاتے ہیں۔
14۔ گدھ کی نسل اب ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ان پرندوں کی بقاء کے لئے محکمہ جنگلات جہدو جہد میں مصروف ہے حکومت ہند نے اس پرندہ کے شکار کو ممنوع قرار دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایڈون ڈراوڈ کی مسٹری جس میں ایک مصنف نے اپنے مرنے کے بعد ایک عام سے شخص سے اپنا ناول لکھوا دیا تھا۔ اس بارے میں جاننے کے لئے وزٹ کریں

روسی موٹر سائیکلسٹ کے متنازعہ گروپ کی برلن آمد

0 comments

روسی موٹر سائیکلسٹ کے متنازعہ گروپ کی برلن آمد

روسی موٹر سائیکل سواروں کا ایک معروف گروپ نائٹ وولز جرمن دارالحکومت برلن پہنچ گیا ہے۔ اس گروپ کی جرمن آمد کو مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ 
نائٹ وولز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قوم پرست روسیوں کا ایک گروپ ہے اور اسے صدر ولادی میر پوٹن کے ’ہیل اینجلز‘ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہیل اینجلز موٹر سائیکل سواروں اور روک میوزک پسند کرنے والوں کا ایک بین الاقوامی گروپ ہے، جس پر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات بھی عائد ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق نائٹ وولز انتیس اپریل کو ماسکو سے روانہ ہوئے تھے اور اتوار کی شب برلن پہنچے۔ یہ گروپ اُسی راستے سے ہوتا ہوا برلن پہنچا، جو 1945ء میں دوسری عالمی جنگ کے دوران سوویت فوجوں نے جرمنی میں داخل ہونے کے لیےاپنایا تھا۔

پولیس نے بتایا کہ نائٹ وولز کے گروپ میں کوئی دو سو موٹر سائیکل سوار شامل ہیں۔ یہ لوگ برلن کے مشہور زمانہ برانڈنبرگ دروازے پر سوویت فوجیوں کی یاد میں تعمیر کی گئی ایک یادگار پر پھول چڑھائیں گے۔ گزشتہ برس بھی یہ گروپ برلن آیا تھا تاہم سفری پابندیوں کی وجہ سے اس کے کچھ ہی ارکان جرمنی پہنچ پائے تھے۔
نائٹ وولز نے 2014ء میں یوکرائن کے علاقے کریمیا میں روسی مداخلت اور قبضے کی حمایت کی تھی، جس کے بعد سے اسے ایک متنازعہ گروپ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ روسی صدر ولادی مپر پوٹن نائٹ وولز کی کھل کر حمایت کرتے ہیں جبکہ وہ بھی کئی مرتبہ ان کے ساتھ ہی موٹر سائیکل چلا چکے ہیں۔


چین میں لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک، 25لاپتہ

0 comments

چین میں لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک، 25لاپتہ

جنوبی چین میں ایک پن بجلی منصوبے کے مقام پر پیر کے روز ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ میں ہلاک ہونے والے چودہ افراد کی لاشیں نکال لی گئی ہیں۔ دو روز سے جاری شدید بارشوں اور لینڈسلائیڈنگ کے نتیجے میں پچیس افراد تاحال لا پتہ ہیں۔
مرکزی حکومت کی جانب سے بھیجے گئے ماہرین اور امدادی کارکنان 100.000 مکعب میٹر حجم کے اس پہاڑ کے ایک حصے سے گرنے والے پتھروں اور مٹی کے تودوں کو ہٹانے اور زندگی کے آثار کی تلاش میں مصروف ہیں۔ اتوار کی صبح ایک دفتری عمارت مٹی کے تودے کی زد میں آگئی تھی، جب کہ اس میں موجود مزدورں ملبے تلے دب گئے تھے۔ اس حادثے میں زندہ بچ جانے والے ایک شخص ڈینگ چن وو نے چین کے سرکاری خبر رساں ادارےشِنہواکو بتایا، ’’ہم سو رہے تھے، جب پہاڑ بہت زور سے ہلنے لگے اور اس سے پہلے کہ ہم کچھ سمجھ پاتے، ہمارے گھر میں ریت اور مٹی بھر چکی تھی۔ نیوز ایجنسی کے مطابق ڈینگ اور دیگر تین مزدوروں نے ایک ستون کے نیچے سمٹ کر اپنی جان بچائی۔ چینی نیوز ایجنسی اور سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی کے مطابق حادثے کا شکار ہونے والے بہت سے افراد ہڈیاں ٹوٹنے اور دوسری چوٹیں آنے کے باعث ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ پولیس اور آگ بجھانے والے کارکنوں سمیت 600 سے زائد امدادی کارکن، لاپتہ افراد کی تلاش اور جائے حادثہ کو جانے والی سڑکوں کی صفائی کی کوشش کرتے رہے ہیں، جو سیلاب اور مٹی کے تودوں کی وجہ سے بند تھیں اور بھاری مشینری کے راستے میں رکاوٹ پیدا کر رہی تھیں۔ ضلعی محکمے کے ایک سرکاری اہلکار کے مطابق اس تازہ لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ اب تک معلوم نہیں ہو سکی تاہم یہ علاقہ گزشتہ چند برسوں میں وقفے وقفے سے شدید بارشوں کا شکار ہے۔

خواب خوگوش کے سب سے زیادہ مزے کونسی قوم لوٹتی ہے؟

0 comments

خواب خوگوش کے سب سے زیادہ مزے کونسی قوم لوٹتی ہے؟

محققین نے پہلی مرتبہ ایک ایپ کی مدد سے دنیا کی مختلف اقوام کی سونے کی عادات سے متعلق اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ اس دوران ہر منٹ اور سیکنڈ تک کا حساب رکھا گیا ہے۔ 
اس تحقیقاتی رپورٹ کی تیاری میں ہزاروں رضاکاروں نے حصہ لیا۔ نتیجے کے مطابق جاپان اور سنگاپور کے شہریوں کی رات کی نیند سب سے زیادہ ہے اور یہ لوگ اوسطاً سات گھنٹے اور چوبیس منٹ سوتے ہیں۔ تاہم ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں ہالینڈ کے شہری خواب خرگوش کے سب سے زیادہ مزے لوٹتے ہیں۔ ولندیزی شہریوں کی رات کی نیند آٹھ گھنٹے اور بارہ منٹ ہے۔ جرمن شہری سات گھنٹے اور پینتالیس منٹ کے ساتھ اُن دیگر بیس ممالک کے شہریوں سے کم سوتے ہیں، جن کا اس رپورٹ میں تذکرہ کیا گیا۔

بتایا گیا ہے کہ سونے کی عادات جاننے کے لیے یونیورسٹی مشیگن کے محققین نے خود ایک ایپ تیار کی، جسے ’انٹرٹین‘ کا نام دیا گیا۔ یہ نتائج ’سائنسس ایڈوانسس‘ نامی جریدے میں شائع ہوئے ہیں۔ اس رپورٹ میں سونے کی عادات کے حوالے سے دنیا بھر کی اقوام میں کوئی بہت واضح فرق سامنے نہیں آیا ہے۔ امریکی محقق اولیویا والش کہتی ہیں کہ ہر آدھے گھنٹے کی نیند کا انسانی دماغ کی کارکردگی پر بہتر اثر پڑتا ہے جبکہ اس کے صحت پر بھی انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اس رپورٹ کی تیاری میں تقریباً ساڑھے پانچ ہزار رضاکاروں نے اپنی خدمات پیش کیں۔ اس دوران یہ بات نمایاں طور پر سامنے آئی کہ نیند کا تعلق صرف تھکاوٹ سے نہیں ہوتا بلکہ ماحول اور سماجی معیارات سے بھی ہے۔ اس کے علاوہ نوکری اور بچوں کو اسکول کے لیے جگانے جیسی ذمہ داریاں بہرحال صبح اٹھنے کی وجوہات میں شامل ہیں تاہم کسی شخص کی بائیولوجیکل کلاک یا حیاتیاتی گھڑی بھی نیند سے اٹھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔